غصیلی خاتون صحافی کا امام خمینی سے انٹرویو

نادر بلوچ

0 501
انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی پچھلی صدی کی ایک تاریخ ساز اور عہد ساز شخصیت ہیں، جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدلا، ایران میں 25 سو سالہ شہنشاہیت کا خاتمہ کیا۔ 1979ء میں ایران میں اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت سب کی توجہ تہران پر مرکوز تھی، سب جاننا چاہتے تھے کہ نئی حکومت کیا اقدات کرے گی، ترجیحات کیا ہوں گی اور اس کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کے قائم ہونے کے ٹھیک چھ ماہ بعد ہی صحافت کی دنیا کا بڑا نام ممتاز اطالوی خاتون صحافی اوریانا فالاچی جو اپنے انٹرویوز کے حوالے سے جانی پہچانی جاتی تھیں اور صحافتی افق پر ایک بڑا نام تھا، وہ تہران پہنچیں اور ایرانی حکام کو بتایا کہ وہ امام خمینی کا انٹرویو کرنا چاہتی ہیں۔
یہ ستمبر 1979ء کا مہینہ تھا اوریانا فالاچی کو کم و بیش دس دن ایران کے تاریخی اور مقدس شہر قم میں انتظار کرنا پڑا، بلآخر 12 ستمبر 1979ء کو وہ مدرسہ فیضیہ میں یہ انٹرویو کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ یہ انٹرویو دو حصوں میں ہوا اور 9 اکتوبر 1979ء کو نیویارک ٹائمز کے فرنٹ پیج پر شائع ہوا۔ انٹرویو کے پہلے حصے میں امام خمینی ایک سوال پر غصے میں ادھورا انٹرویو چھوڑ کر چلے گئے تھے، کیوں کہ انٹرویو کےدوران اوریانا نے اپنا حجاب اتار پھینکا تھا۔ فالاچی نے کیا سخت سوال کیا تھا یہ آگے چل کر بتائیں گے پہلے اوریانا فالاچی کے بارے میں جان لیں کہ یہ نامور صحافی کون تھی؟۔
اوریانا فالاچی کا نام اور کام، پہلی بار فاشزم کے خلاف آواز اٹھانے والی صحافی کے طور پر دوسری جنگ عظیم کے دوران ابھرا۔ جس میں انہوں نے انتہائی بےخوفی کے ساتھ مختلف ممالک میں جنگ کے میدانوں سے براہ راست رپورٹنگ کی اور دنیا کے سامنے حقائق رکھے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد اوریانی فالاچی نے اس دور کے مشرق اور مغرب کے منظرنامے پر نمایاں اثرات چھوڑنے والے ان عالمی سیاستدانوں سے انتہائی منفرد انٹرویوز کیے، جن میں سے اکثر متنازع اور سخت گیر سمجھی جانے والی شخصیات ہیں۔ ان شخصیات کے ساتھ اوریانا کے کیے ہوئے انتہائی مشکل اور غصہ دلانے والے سوالات نے، فالاچی کے انٹرویوز کی اہمیت کو اور بڑھا دیا۔
14 شخصیات سے کئے ہوئے یہ تاریخی انٹرویوز ”انٹرویو ود ہسٹری“ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ ”تاریخ کا دریچہ“ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ یہ کتاب سب سے پہلے اطالوی زبان میں اٹلی سے 1973ءاور 1974ء میں شائع ہوئی، جس کے بعد 1976ء میں اس کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا، جس کے آج تک سینکڑوں ایڈیشنز شائع ہوچکے ہیں، اس کتاب میں دو خاتون شخصیات سابق اسرائیلی وزیراعظم ’گولڈا میئر‘ اور بھارت کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی سمیت اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر، سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو، شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی، آزادی فلسطین کے رہنما یاسر عرفات، اردن کے شاہ حسین، نگوئن وان تھیو، ڈوم ہیلڈر کیمارا، صدر بشپ میکیریس اور الیگزینڈر پیناگولز سمیت دیگر کے انٹرویوز شامل ہیں۔
امام خمینی سے انٹرویو کے دوران ارویانا فالاچی نے جس طرح کے سخت سوالات کیے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے اسلام کی وجہ سے دنیا بھر میں خرابیاں ہیں، ان کا تذکرہ بھی اوریانا نے امام خمینی سے کیے جانے والے سوالات میں کیا لیکن امام خمینی نے انہیں جس تحمل مزاجی کے ساتھ جواب دیئے، اس کی وجہ سے وہ خود لاجواب ہوگئی تھیں، فالاچی نے لکھا کہ انہوں نے جتنے بھی انٹر ویو کئے، ان تمام افراد میں سے انہوں نے امام خمینی کو نہایت ہی شفیق پایا۔ اوریانا کو انٹرویو سے قبل ہی ایرانی حکام کی جانب سے بتا دیا گیا تھا کہ امام خمینی کے سامنے انہیں اپنے آپ کو چادر سے ڈھانپنا پڑے گا جسے انہوں نے قبول کر لیا تھا لیکن انٹرویو کے آغاز پر ہی ارویانا نے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ یہ کیوں ضروری ہے کہ وہ یہ چادر اوڑھے رہے، ایرانی خواتین تیراکی چادر میں کیسے کرسکتی ہیں، ایرانی خواتین شاہ کے خلاف شانا بشانہ ساتھ تھیں۔
امام خمینی کا جواب تھا کہ یہ یہاں کی روایات اور اسلامی احکام کی پابندی ہے، جو خواتین کل انقلاب کی تحریک میں شامل تھیں وہ آج بھی نظام کے ساتھ کھڑی ہیں، مسلسل سوال پر امام خمینی نے کہا کہ یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے نہ ہی آپ پر اس کی پابندی ہے۔ اس جواب پر موقع ملتے ہی ارویانا نے چادر اتار پھینک دی۔ ارویانا کے بارے میں مشہور تھا کہ بعض اوقات وہ بدتمیزی کی حد سے بھی گزر جاتی تھیں۔ شائد یہ فالاچی کا اسٹائل تھا کہ وہ دوران انٹرویو، انٹرویو دینے والے شخص کو اکساتی تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بھڑاس سن سکیں اور اپنے سوالوں کے جواب پا سکیں یا وہ جو چاہتی ہیں اس طرح ہی انٹرویو ہو۔ اوریانا فالاچی کا خیال تھا کہ امام خمینی غصے میں آجائیں گے، شائد وہ مغرب کو یہ ہی دکھانا چاہتی تھیں کہ اسلامی انقلاب کے بانی کیسے ایک سوال پر اتنے غصے میں آگئے لیکن امام خمینی نے اوریانا کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی، وہ اٹھ کر چلے گئے اور چوبیس گھنٹے کے اندر پھر دوبارہ انٹرویو کی نشست ہوئی جس میں انٹرویو مکمل ہوا۔
فالاچی نے لکھا کہ جب میں نے انٹرویو کی دوسری نشست شروع کی تو امام خمینی کے چہرے پر مسکراہٹ نظر آئی اور پھر یہ مسکراہٹ قہقہے میں بدل گئی، جب میں نے انٹرویو ختم کرلیا تو امام خمینی کے بیٹے احمد خمینی نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنے باپ کو کبھی اتنا ہسنتے ہوئے نہیں دیکھا، اس کا خیال تھا کہ اس دنیا میں وہ واحد انسان ہیں جس نے میرے باپ کو ہنسا دیا۔ فالاچی مزید لکھتی ہیں کہ امام خمینی ذہین انسان تھے، میں نے ان سے زیادہ وجیہہ اور پروقار بزرگ کبھی نہیں دیکھا، وہ مائیکل اینجلو کے مجسمے ’’موسیٰ‘‘ سے مشاہبت رکھتا ہے، وہ اسلامی دنیا کے عرفات، قذافی یا دوسرے کئی آمروں کی طرح کٹھ پتلی نہیں تھے، وہ پوپ کی طرح ہے، ایک بادشاہ کی خُو لیے ایک سچا لیڈر جس سے ایرانی عوام بے حد محبت کرتی ہے، لوگوں کو امام خمینی کی شکل میں ایک اور نجات دہندہ نظر آتا ہے۔
یہ انٹرویو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، اس انٹرویو میں امام خمینی کی جہاں شخصیت کا اندازہ ہوگا وہیں آپ کو اوریانا فالاچی کی صحافت، تخلقیقی سوالات، گفتگو سے مزید سولاات نکالنا، حاضر جوابی بھی نظر آئی گی۔ اس سے یہ بھی نظر آئے گا کہ فالاچی کسی بھی انٹرویو سے پہلے کتنی تیاری کرتی تھیں، کتنا مطالعہ کرتی تھیں، حتیٰ اس شخصیت، اس کی تحریک، اسکے کام کے بارے میں کتنا جانتی تھیں۔ اوریانا فالاچی کے انٹرویو سے چند سوالات اور ان کے جوابات پڑھیے تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ فالاچی کس پائے کی صحافی تھیں اور امام خمینی کتنی بڑی ہستی تھے جنہوں نے بہت ہی تحمل اور برداشت کے ساتھ جوابات دیئے۔
اوریانا فالاچی: اس وقت ایران میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو آپ کو ڈکٹیٹر بلکہ جدید ڈکٹیٹر اور نئے اختیارات کا حامل جانتے ہیں۔ آپ کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟ کیا یہ مسئلہ آپ کو پریشان کرتا ہے یا آپ اس پر توجہ نہیں دیتے؟۔
امام خمینی: ایک جانب تو میں پریشان ہوتا ہوں اور مجھے افسوس ہوتا ہے کیونکہ یہ بالکل غلط اور غیر انسانی ہے کہ مجھے ڈکٹیٹر کہا جائے۔ دوسری جانب میرے لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بعض الزامات انسان کے کردار کا حصہ ہوتے ہیں اور وہ ہمارے دشمنوں کی جانب سے لگائے جارہے ہیں۔ جس راستے کا ہم نے انتخاب کیا ہے وہ ایسا راستہ ہے جو سپر طاقتوں کے خلاف ہے۔ اس میں یہ ایک فطری چیز ہے کہ اغیار کے پٹھو ہمیں زہرآلود ڈنک ماریں گے اور ہر طرح کا غلط اور بےبنیاد الزام ہم پر لگائیں گے۔ اس کے علاوہ ہمیں ان سے کوئی توقع بھی نہیں ہے۔ جن ممالک کو ہمیں لوٹنے اور کھانے کی عادت پڑی ہوئی ہے، کیا وہ خاموش اور چین سے بیٹھے رہیں گے؟ اور شاہ کے پٹھو تو اس سے بھی بڑی بڑی بے بنیاد باتیں کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ خمینی نے عورتوں کے پستان کاٹنے کا حکم دیا ہے، آپ لوگ جو یہاں موجود ہیں، خود ہی بتائیں، کیا خمینی عورتوں کے پستان کاٹنے جیسے ہولناک ظلم کا مرتکب ہوا ہے؟۔
اوریانا فالاچی: نہیں! ایسی کوئی بات نہیں ہے لیکن آپ لوگوں کو ڈراتے ہیں اور آپ کے ساتھی بھی لوگوں کو ڈراتے ہیں۔ آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ جب آپ شب و روز نعرے سنتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ وہ گھنٹوں تک یہاں کھڑے رہتے ہیں، حالانکہ وہ دوسروں کے نیچے آکر کچلے جاتے ہیں اور وہ یہ سب سختیاں برداشت کرتے ہیں تاکہ حتی ایک لمحے کے لیے آپ کو دیکھ سکیں اور اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں۔
امام خمینی: میں بہت خوش ہوتا ہوں جب ان کو دیکھتا ہوں، ان کے نعرے سنتا ہوں، کیونکہ یہ وہی ہیں جنہوں نے ملکی اور غیر ملکی دشمنوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کیلئے تحریک چلائی اور اس وجہ سے بھی کہ ان کے جذبات کا اظہار اسی نعرے کا تسلسل ہے جس کے ذریعے انہوں نے اس ایک غاصب کو ملک سے نکال باہر کیا اور ان کے اندر اسی جذبے کا باقی رہنا بہتر ہے۔ دشمن ابھی نابود نہیں ہوئے ہیں، جب تک ملک میں امن قائم نہیں ہوجاتا، لوگوں کو تیار رہنا چاہیئے، ان کو نئے سرے سے آگے بڑھنے اور حملے کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔ اس کے علاوہ یہ ان کا عشق ہے، اس عشق کا سرچشمہ ان کی معرفت ہے، یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی خوشی نہ ہو۔
اریانا فالاچی: یہ عشق ہے یا فناٹزم ہے؟ میرے خیال میں تو یہ فناٹزم ہے اور فناٹزم، فاشزم سے زیادہ خطرناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ایران میں فاشزم کا خطرہ محسوس کررہے ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ایران میں فاشزم کی حکمرانی ہے؟
امام خمینی: نہیں! اس کا فاشزم سے کوئی تعلق نہیں ہے، فناٹزم سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں ایک بار پھر اس بات کو دہراتا ہوں کہ ملت نعرے لگاتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مجھ سے عقیدت رکھتی ہے اور مجھے دوست رکھتی ہے اور اس وجہ سے کہ ملت محسوس کرتی ہے کہ میں ان کی بھلائی چاہتا ہوں اور ان کی بہتری کے لیے کام کررہا ہوں، کیونکہ میں اسلامی تعلیمات پر عمل کررہا ہوں، اسلام میں عدالت ہے۔ اسلام کے نزدیک ڈکٹیٹر شپ بہت بڑا گناہ ہے، فاشزم اور اسلام دو ایسی متضاد چیزیں ہیں جو کبھی بھی اکٹھی نہیں ہوسکتیں، فاشزم مغرب میں آپ لوگوں کے یہاں وجود میں آتا ہے، اسلامی ثقافت کے حامل لوگوں کے ہاں نہیں۔
انٹرویو بہت طویل ہے جسے آپ انٹرنیٹ پر سرچ کرکے پڑھ سکتے ہیں، اوریانا کے تمام انٹرویوز طویل ہوتے تھے، عالمی رہنماؤں میں کئی رہنما انٹرویو دینے کے بعد پچھتائے کہ انہوں نے انٹرویو کیوں دیا۔ کیوں کہ اوریانا انٹرویو دینے والی کی نفیسات سے بھی کھیلتی تھیں۔ بھٹو کو بھی افسوس رہا کہ اس نے اندرا گاندھی سے متعلق نامناسب کمنٹ کیوں کئے۔ اسی طرح ہنری کسنجر بھی پچھتائے لیکن امام خمینی کے آثار میں ایسا کوئی اظہار نہیں جس میں اس انٹرویو پر کوئی پچھتاوا دکھائی دے۔ امام خمینی نے اوریانا کے تمام سوالات اور نفسیاتی حربوں کا انتہائی متانت سے جواب دیا۔ یہ متانت امام خمینی کے وجود کا خاصہ تھی۔
کہتے ہیں کہ جب امام خمینی کو ترکی جلا وطن کیا گیا تو جہاز میں ساواک کا ایک نمائندہ ان کے ہمراہ موجود تھا۔ اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ امام کے ردعمل کو بغور دیکھے، ان کے غصے، ان کی باتوں کو نوٹ کرے، جانے کہ امام کیا دھمکیاں دیتے ہیں اور اپنی تحریک کے حوالے سے کیا انکشافات کرتے ہیں۔ امام جہاز میں خاموشی سے بیٹھے تھے کہ اچانک اس نمائندے نے امام کو اکسانے کے لیے کہا کہ آئیں آپ کو جہاز کی مشینری دکھاتا ہوں۔ ایک جانب رات کی تاریکی میں گھر کی دیواریں پھلانگ کر گرفتار کرکے لائے تھے اور دوسری جانب جہاز کی مشینری دکھانا چاہتے تھے۔ یہاں کوئی اور شخص ہوتا تو دھمکانا، بڑبڑانا شروع کردیتا لیکن امام انتہائی متانت کے ساتھ اٹھے اور جہاز کی مشینری دیکھنے چلے گئے نہ صرف مشینری دیکھی بلکہ ہر پرزے کے بارے سوالات بھی کئے جس سے ساواک کا نمائندہ اس مرد بزرگ کے خود پر قابو کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.