فلسطین و کشمیر کی مظلوم خواتین

0 660

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاونڈیشن پاکستان

ہر سال آٹھ مارچ عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے، جس کا مقصد دنیا بھر میں خواتین کے حقوق سے متعلق آگاہی پھیلانا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن گذشتہ کئی برس سے شدت کے ساتھ منایا جاتا ہے، جس میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک مخصوص طبقہ فکر اور اسٹیٹس کی حامل خواتین سڑکوں پر نکل آتی ہیں اور واہیات قسم کے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا کر غیر اخلاقی نعروں کی مدد سے خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہیں۔ کیا خواتین کے حقوق میں یہ سب شامل ہے؟ آج پاکستان کا ہر ذی شعور فرد اور بالخصوص خواتین کی اکثریت اس بات کو سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر یہ حقوق نسواں کے نام پر خواتین کی بے حرمتی کس کے اشاروں پر کی جا رہی ہے۔ اگر خواتین کے حقوق سے متعلق بات کی جائے تو دنیا میں سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کی پامالی مغربی معاشروں میں ہی نظر آتی ہے کہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام نے صنف نازک کو سرمایہ داری کا ایک ہتھیار بنا کر استعمال کیا ہے۔

جس طرح کے نعرے آج یوم خواتین کے موقع پر لگائے جاتے ہیں، کیا واقعی ان سب باتوں کا خواتین کے حقوق سے تعلق ہے؟ کیا یہ نعرہ لگانا اور مطالبہ کرنا کہ عورت کو عورت کے ساتھ شادی کرنے کا حق ہونا چاہیئے، کسی صورت بھی خواتین کے حقوق سے مطابقت رکھتا ہے یا پھر ان استعماری قوتوں کا ایک آلہ کار ہے کہ جن کے اپنے انسانی معاشرے جانوروں سے بھی بد تر ہوچکے ہیں اور اب وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کے دیگر مذاہب اور قوموں کے انسانی معاشروں کو جانوروں کے معاشروں سے بھی بد تر بنا دیں۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے بارے میں پاکستان کی نسل نو کو سوچ بچار کرنا ہوگی۔ جہاں تک خواتین کے حقوق کی بات ہے تو ہمارے معاشروں میں خواتین کو تعلیمی سرگرمیوں میں برابر کے حقوق حاصل ہیں، اگر تعلیم کے حقوق سے متعلق تحقیق کی جائے تو یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ تعلیمی اداروں میں مردوں کی نسبت خواتین کی تداد دوگنا ہے۔ کیا ایسے کسی معاشرے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواتین کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں۔؟

آج متعدد ایسی جامعات ہیں کہ جہاں صدور شعبہ خواتین ہیں۔ اسی طرح سرکاری دفاتر ہوں یا پھر روزگار کے دیگر مواقع، تمام مقامات پر خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں تو پھر یہ کون سی قوم ہے، جو سال میں ایک دن آٹھ مارچ کو سڑکوں پر نکل کر صرف اور صرف اخلاقیات کو پامال کرنے کے نعرے بلند کرتی ہے اور پھر عالمی استعماری ذرائع ابلاغ ان کو اس قدر کوریج فراہم کرتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں ان کا نعرہ گونج رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ استعماری قوتیں اور ان کے ممالک خود اس قسم کی غیر اخلاقی انسانی معاشروں کے مسلسل پروان چڑھنے سے پریشان ہیں، لیکن اب وہ چاہتے ہیں کہ اس پریشانی کو دنیا بھر کے تمام انسانی معاشروں میں سرائیت کریں اور دنیا میں انسانی معاشرتی نظام کو مفلوج کر دیں۔ حالانکہ یہ بات ایک کڑوا سچ ہے کہ جو عناصر آٹھ مارچ کو یوم خواتین کی مناسبت سے واہیات نعروں کو بلند کرتے ہیں، انہیں یہ بات بالکل نظر نہیں آتا ہے کہ دنیا میں اگر سب سے زیادہ کوئی خواتین کے حقوق پامال کر رہا ہے تو وہ یہی مغربی استعماری نظام کی حکومتیں ہیں کہ جنہوں نے آج ان نوزادوں کو حقوق نسوان کا نعرہ تھما کر معاشرتی نظام میں خلل ڈالنے کے لئے سرگرم کر رکھا ہے۔

امریکہ میں انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کی پامالی کی داستان بیان کی جائے تو نہ ختم ہونے والی داستانیں وجود رکھتی ہیں۔ اسی طرح یورپی ممالک میں خواتین کے حقوق کو جس قدر پامال کیا جاتا ہے، شاید ہی کسی اور معاشروں میں ایسا دکھائی دے۔ فلسطینی خواتین دنیا کی سب سے مظلوم ترین خواتین ہیں کہ جن کے سامنے ان کے بچوں کو قتل کیا جاتا ہے، ان کے پیاروں کو قید و بند کیا جاتا ہے، خود خواتین کو بلا کسی وجہ کے گرفتار کرکے جنسی ہراساں کیا جاتا ہے اور یہ سب کے سب کام امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے۔ فلسطینی خواتین کے حقوق کی پامالی کی داستان ستر سال سے جاری ہے، لیکن آج تک کسی بھی آٹھ مارچ کے مظاہروں اور ریلیوں میں ان نام نہاد سول سوسائٹی کی خواتین نے ایک بھی پلے کارڈ فلسطین کی خواتین کے حقوق کے لئے بلند نہیں کیا۔

مقبوضہ کشمیر کی حالت دیکھ لیجیے، جہاں بھارت کی ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ فلسطین کی طرح یہاں بھی ستر سالہ تاریخ ہے۔ خواتین کی عصمت دری کی درجنوں داستانیں موجود ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھی خواتین کو قید کرکے جنسی ہراساں کیا جاتا ہے۔ مائوں کے سامنے ان کے پیاروں کو قتل کیا جاتا ہے، بیویوں کے سامنے ان کے شوہروں کو گرفتار اور قتل کر دیا جاتا ہے۔ معصوم بچیوں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سفاکیت کی کون کون سی داستان یہاں بیان کی جائے؟ یہ سب کچھ بھارت کی حکومت کے زیر اثر اور اس کے حکم پر کیا جا رہا ہے۔ لیکن کبھی بھی آٹھ مارچ کو پاکستان کی ان نام نہاد سول سوسائٹی خواتین نے مقبوضہ کشمیر کی ان بے سہارا خواتین کے حقوق کے لئے ایک بھی نعرہ تو دور کی بات ہے، ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے۔

بطور مرد میں بھی خواتین کے حقوق کا حامی ہوں، چاہتا ہوں خواتین کا احترام ہو، عزت ہو، ان کا جو مقام ہے، انہیں وہ دیا جائے لیکن کیا عورت کا مقام صرف اور صرف یہی ہے کہ جو آٹھ مارچ کی ریلیوں میں بیان ہو رہا ہے۔ آخر ان مغرب زدہ افراد کو کیوں فلسطین سے کشمیر تک ہونے والے ظلم اور بربریت کی داستانیں نظر نہیں آتی ہیں۔؟ آخر کیوں آج فلسطینی عورت اسرائیل کی قید میں ہے؟ آخر کشمیر کی خواتین کا کیا قصور ہے؟ ان کے حق کے لئے کوئی کیوں پلے کارڈ اور نعرے لگاتا ہوا آٹھ مارچ کو سڑکوں پر نہیں نکلا؟ کشمیر میڈیا سروس کے تحقیقاتی شعبے کی جانب سے خواتین کے عالمی دن کے موقوع پر جاری کی گئی رپورٹ انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے کشمیری خواتین پر ظلم و جبر کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، مقبوضہ کشمیر میں جنوری 1989ء سے اب تک بھارتی فوجیوں نے ہزاروں خواتین سمیت 95 ہزار 747 شہریوں کو شہید کیا جبکہ صرف جنوری 2001ء سے اب تک کم سے کم 675 خواتین کو شہید کیا۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جاری بھارتی ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں 22 ہزار 924 خواتین بیوہ ہوئیں، 11 ہزار 236 خواتین کی بے حرمتی کی، جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی آبروریزی اور شوپیاں میں بے حرمتی کے بعد قتل کی جانے والی 17 سالہ آسیہ جان اور اس کی بھابی نیلوفر جان بھی شامل تھیں۔ لیکن اس بارے میں آپ کو آٹھ مارچ کو نکالی جانے والی نام نہاد حقوق نسواں ریلیوں میں کوئی آواز بلند ہوتی سنائی نہیں دی ہوگی۔ دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مقبوضہ فلسطین میں اسیران کلب کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صیہونی ریاستی دہشتگردی میں فلسطینیوں کے ساتھ بغیر کسی تخصیص کے مظالم جاری ہیں، صیہونی فوجیوں نے جہاں ہزاروں فلسطینی باشندوں کو شہید کیا ہے، ان میں بچوں سمیت خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہیں جبکہ فلسطینی خواتین کی بڑی تعداد ہے، جو صیہونی زندانوں میں اپنی زندگیوں کے قیمتی سال گزار رہی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صیہونی ریاست کی مختلف جیلوں میں اس وقت 45 خواتین پابند سلاسل ہیں، جن میں سماجی، سیاسی اور انسانی کارکنان سمیت معلمات، خواتین صحافیوں سمیت طالبات بھی شامل ہیں جبکہ ان 35 خواتین میں 26 ایسی ہیں، جو صیہونی ریاست کی انتظامی حراست کی غیر قانونی پالیسی کے تحت بغیر کسی جرم کے قید ہیں۔ قابض صیہونی ریاست نے 1967ء سے اب تک کم سے کم 16،000 سے زیادہ خواتین کو گرفتار کرکے صیہونی عقوبت خانوں میں قید کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے معاشروں کے کردار سازی کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ خواتین کبھی ماں تو کبھی بہن اور کبھی بیٹی اور کبھی بیوی جیسے مقدس رشتوں کی صورت میں اپنا فرض نبھاتی رہی ہیں۔ جہاد کا مقام ہو تو بھی ہمیں رسول اللہ (ص) کی دختر جناب سیدہ فاطمہ زہراء میدان میں زخمیوں کی مدد کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

اسی طرح دور حاضر کی دنیا میں فلسطین میں لیلی خالد جیسی خواتین موجود ہیں، کشمیر میں آسیہ اندرابی ہیں، عراق میں ہمیں خواتین کے اصل حقوق کی جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہونے والی آمنہ بنت الہدیٰ ملتی ہیں، اسی طرح امریکن لڑکی راشیل کوری نے فلسطینیوں کی خاطر اپنی جان قربان کر دی۔ تاریخ ایسی شرافت زادیوں اور بہادر خواتین سے بھری پڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں آج انہی کا مقام اور نام باقی ہے۔ ہماری خواتین کو اپنے حقوق اور معاملات کے لئے ایسی ہی خواتین کو مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے۔ آج دنیا میں اگر سب سے زیادہ کوئی مظلوم خواتین کو دیکھنا چاہتا ہے تو فلسطین اور کشمیر کی خواتین سے زیادہ کوئی مظلوم نہیں ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.