امریکہ کمزور پڑ چکا، دنیا نئے ورلڈ آرڈر کی دہلیز پر کھڑی ہے، رہبر معظم انقلاب اسلامی

0 374

رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منگل کی شام پورے ملک کے بعض طلباء اور اسٹوڈنٹس یونینوں کے نمائندوں سے ملاقات میں عالمی یوم قدس کے قریب آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: فلسطینی عوام کی عظیم قربانیوں اور صیہونیوں کی رذالت اور جرائم کی انتہا کے پیش نظر، اس سال کا یوم قدس، پچھلے برسوں سے الگ ہے اور اس وقت صیہونی حکومت، فلسطینیوں کے خلاف ہر طرح کے ناجائز کام اور جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے اور امریکا اور یورپ بھی اس کی حمایت کر رہے ہیں۔

انھوں نے فلسطینی قوم کو مظلوم اور ساتھ ہی مقتدر بتایا اور فلسطینی نوجوانوں کے جہاد و استقامت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جو مسئلۂ فلسطین کو فراموش نہیں ہونے دیں گے، کہا: یوم قدس، فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ ہمدلی اور یکجہتی کے اعلان اور انھیں حوصلہ دینے کا ایک مناسب موقع ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مسئلۂ فلسطین کے سلسلے میں اسلامی حکومتوں کی کارکردگي پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: افسوس کی بات ہے کہ آج اسلامی حکومتیں، بہت برے طریقے سے کام کر رہی ہیں اور وہ فلسطین کے موضوع پر بات تک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان میں سے بعض کا یہ خیال ہے کہ فلسطین کی مدد کرنے کا راستہ، صیہونیوں سے تعلقات قائم کرنا ہے جبکہ یہ بہت بڑی غلطی اور غلط فہمی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے چالیس سال قبل مصر کی حکومت کی جانب سے کی جانے والی اس بڑی غلطی اور صیہونیوں کے ساتھ تعلقات قائم کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: کیا صیہونی حکومت کے ساتھ مصر کے تعلقات، فلسطینی قوم کے خلاف صیہونیوں کے جرائم میں کمی اور مسجد الاقصی کی بے حرمتی میں کمی کا سبب بنے کہ اب کچھ اسلامی حکومتیں، انور سادات کی اسی غلطی کو دوہرانا چاہتی ہیں؟!

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تعلقات استوار کرنے سے صیہونی حکومت کو بھی کوئي فائدہ نہیں ہوگا، کہا: ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم کے لطف و کرم سے فلسطین میں اچھا اور نیک نتیجہ سامنے آئے گا اور اپنی سرزمین اور مسجد الاقصی پر فلسطینیوں کا کنٹرول جلد ہی عملی جامہ پہن لے گا۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ آج دنیا ایک نئے عالمی نظام کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ ایک نیا عالمی نظام دنیا کے سامنے آنے والا ہے، اس دو قطبی نظام کے مقابلے میں جو بیس پچیس سال پہلے موجود تھا، امریکا اور سوویت یونین، مغرب اور مشرق، اس یک قطبی نظام کے مقابلے میں بھی جس کا اعلان بیس پچیس سال پہلے بش سینیر نے کیا تھا۔ دیوار برلن گرائے جانے اور دنیا سے مارکسی نظام اور سوشلسٹ حکومتوں کے خاتمے کے بعد بش نے کہا تھا کہ آج دنیا، نئے عالمی نظام کی دنیا اور امریکا کے یک قطبی نظام کی دنیا ہے۔ یعنی امریکا، دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک ہے، البتہ انھیں غلط فہمی تھی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایاکہ پھر ان کی سمجھ میں بھی آ گيا تھا کہ امریکا روز بروز اس بیس پچیس سال پہلے کے امریکا کی نسبت، زیادہ کمزور ہو رہا ہے، اندرونی طور پر بھی، داخلہ پالیسیوں میں بھی، خارجہ پالیسیوں میں بھی، معیشت میں بھی، سیکورٹی میں بھی، غرض ہر میدان میں امریکا، بیس سال پہلے کی نسبت اب زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: یوکرین کی حالیہ جنگ کے امور کو زیادہ گہرائي سے اور نئے عالمی نظام کی تشکیل کے تناظر میں دیکھنا چاہیے اور ممکنہ طور پر اس کے بعد، پیچیدہ اور دشوار حالات پیش آئیں گے اور ان نئے اور پیچیدہ حالات میں اسلامی جمہوریہ سمیت تمام ملکوں کی ذمہ داری، اس نئے عالمی نظام میں بھرپور کردار کی ادائیگی ہے تاکہ ملک کے مفادات اور قومی سلامتی کا تحفظ ہو اور ملک، حاشیے پر نہ چلا جائے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اسی طرح اسلامی انقلاب کے بعد ملک کی یونیورسٹیوں کی صورتحال میں آنے والی بہتری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب ایک قوم کے اندر تشخص پیدا کرنے اور آئيڈیلائزیشن کی قومی تحریک شروع ہوتی ہے تو جسے سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ یونیورسٹی کا جوان اور اسٹوڈنٹ ہے؛ وہ نوجوان اسٹوڈنٹ جس کے اپنے جذبات ہیں، اپنی آگہی ہے اور پاکیزگي ہے۔ یونیورسٹی نے اپنے تشخص کا احساس کیا اور یہ احساس، اس بات کا سبب بنا کہ یونیورسٹی اور اسٹوڈنٹس، مغربی طاقتوں کے سامنے کمزوری اور حقارت کا احساس نہ کریں اور یہ چیز، انقلاب سے پہلے کے ماحول کے بالکل برخلاف تھی۔

انھوں نے کہا: اسلامی جمہوریہ، یونیورسٹی پر فخر کر سکتی ہے اس لیے کہ آج کی یونیورسٹی کا، انقلاب کے ابتدائي دور کی یونیورسٹی سے واقعی کوئي موازنہ ہی نہیں ہے۔ ہاں اس وقت جذبات زیادہ کارفرما تھے اور جوشیلے اقدامات انجام پاتے تھے کیونکہ انقلاب کا ابتدائي زمانہ تھا لیکن آج ہمارے ملک کی یونیورسٹی کا، انقلاب کے اوائل کی یونیورسٹی سے کوئي موازنہ ہی نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کی تعداد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس وقت ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے کل اسٹوڈنٹس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی جبکہ آج یونیورسٹیوں کے طلباء کی تعداد دسیوں لاکھ ہے۔ اسی طرح پروفیسروں کی تعداد کے لحاظ سے بھی اگر دیکھا جائے تو اس وقت ہمیں جو رپورٹیں دی جاتی تھیں ان کے مطابق تہران کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی تعداد تقریبا پانچ ہزار تھی جبکہ آج دسیوں ہزار ہے جن میں سے بہت سے بڑے ممتاز دانشور ہیں۔ تو آج اسٹوڈنٹس اور اساتذہ کی تعداد واقعی قابل فخر ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے یونیورسٹی کو، انقلاب کے سب سے بنیادی موضوعات میں شمار کیا اور یونیورسٹی کے اہم نتائج اور کارناموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ایران، اپنی یونیورسٹی پر فخر کرتا ہے اور نوجوان اسٹوڈنٹ کو آج ملک کے کلیدی مسائل پر گہرائي سے غور و خوض اور تفکر کے ذریعے نیز ہر طرح کی بے عملی اور مایوسی سے پرہیز کر کے، ملک کے حکام سے انقلاب کی امنگوں اور حقیقی اور سنجیدگي کاموں کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ بغیر تفکر والے علم کا نتیجہ، عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار جیسے انسانیت کے لیے شدید نقصان دہ چیزوں کی صورت میں سامنے آتا ہے اور صحیح تفکر کے لیے استاد اور رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ نمونے کے طور پر مرحوم آيۃ اللہ مصباح یزدی، فکری مسائل میں ایک زبردست استاد اور رہنما تھے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے نہج البلاغہ میں امیر المومنین علیہ السلام کے ایک قوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کی گئی وعظ و نصیحت کو، دلوں کو زندہ کرنے والا بتایا اور سورۂ مریم کی ایک آيت کا حوالے دیتے ہوئے نصیحت کی کہ قیامت کا دن، حسرت کا دن ہے بنابریں ہمیں اس طرح زندگي گزارنی چاہیے کہ اس سخت دن، کوئي کام کرنے یا نہ کرنے اور کوئي بات کہنے یا نہ کہنے کی ہمیں حسرت نہ رہے، کیونکہ اس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.