پاکستانی سائنسدان کی زحل کے چاند پر حیات کیلئے فاسفورس دریافت
یونیورسٹی آف فِریئے سے وابستہ ڈاکٹرنوزیر خواجہ ٹیم کے ہمراہ اہم کردار ادا کیا
کراچی(شوریٰ نیوز)پا کستانی سائنسدان کی زحل کے چاند پر حیات کیلئے فاسفورس دریافت ،یونیورسٹی آف فِریئے سے وابستہ ڈاکٹرنوزیر خواجہ ٹیم کے ہمراہ اہم کردار ادا کیا ،پاکستانی سائنسداں اس اہم ٹیم کا حصہ ہیں جس نے ہمارے نظامِ شمسی میں حیات کے لیے ایک ضروری عنصر دریافت کرلیا ہے۔کائنات میں کسی زندگی کے آثار تلاش کرنے والی اس ٹیم میں ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے اہم کردار ادا کیا ہے جو یونیورسٹی آف فِریئے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے سیارہ زحل کے برفیلے چاند، اینسلیڈس پر فاسفورس دریافت کیا ہے جو حیات کے لیے انتہائی ضروری لیکن نایاب عنصر بھی ہے۔جامعہ فِریئے سے وابستہ پروفیسر فرینک پوسٹبرگ بین الاقوامی سائنسدانوں کی ٹیم کے سربراہ ہیں جنہوں نے کئی برس تک ناسا کے خلائی جہاز کیسینی کے ڈیٹا کا بغورجائزہ لے کر بتایا ہے کہ اینسلیڈس چاند کی گہرائی ایک وسیع سمندر موجود ہے جہاں فاسفیٹس کی شکل میں فاسفورس موجود ہے۔یہ تحقیق بدھ 15 جون 2023 کو ممتاز سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوئی ہے۔پروفیسر فرینک پوسٹبرگ نے بتایا کہ ’’ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ اینسلیڈس کے سمندری پانی میں بڑی مقدارمیں فاسفیٹس موجود ہیں اور ہمارے ارضی کیمیائی تجربات بتاتے ہیں کہ آخر زمینی سمندر کے مقابلے میں اینسلیڈس کے بحر میں اس اہم مرکب سے کیوں مالامال ہے‘‘ ۔فاسفورس ہماری زمین پر بھی ایک نایاب عنصر ہے جو مٹی کو زرخیز تو بناتا ہی ہے لیکن زندگی کی کتاب ڈی این اے اور اس سے وابستہ آراین اے کی تشکیل میں بنیادی ڈھانچے کا کردار ادا کرتا ہے، یہی وجہ ہے برفیلا اینسلیڈس حیات کے لیے ایک موزوں ترین امیدوار ہوسکتا ہے۔تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے اپنی ای میل میں ایکسپریس کو بتایا کہ ’’اینسلیڈس پر فاسفیٹ کی دریافت کے بعد وہاں زندگی کے لیے انتہائی ضروری چھ اہم عناصر کی تعداد پوری ہوچکی ہے جن میں کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، آکسیجن، فاسفورس اور سلفر شامل ہیں‘‘۔ہم جانتے ہیں کہ فاسفورس حیات کے لیے انتہائی بنیادی اینٹ کی طرح ہے جو ڈی این اے کے علاوہ بھی حیات کے لیے بہت ضروری ہے۔ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے مزید کہا کہ ’’اس (فاسفورس کی) دریافت کے بعد زحل کا چاند زمین سے ماورا زندگی کی تلاش کے لیے ایک اہم مقام بن چکا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید آلات و ٹیکنالوجی سے لیس نئے خلائی مشن اس جانب بھیجے جائیں تاکہ ہم حقیقی طور پر جان سکیں کہ آیا اس کا سمندر میں حیات کے لیے کتنا اور کس قدر موزوں ہے