آسمانی بجلی کی پیش گوئی کرنے والا پہلا ڈیٹیکٹرپاکستان میں نصب
کراچی سمیت دیہی سندھ کے مختلف اضلاع میں 6 لائٹننگ ڈیٹیکٹرز نصب کیے جائیں گے۔ 25 ڈیٹیکٹرزچین نے پاکستان کو تحفے میں دیے ہیں۔
کراچی میں بیک وقت ایک شارٹ اورایک لانگ رینج ڈیٹیکٹرنصب کیا جائےگا جو سمندرکی جانب سے آسمانی بجلی گرنے کے واقعات کی اطلاع کا حامل ہوگا۔ بارشوں کے سسٹم کی گرج چمک دوران بالا فضأوں میں آسمانی بجلی کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکے گا۔
منصوبے کے تحت ملک بھرمیں 25 لائٹننگ ڈیٹیکٹرزنصب کیے جائیں گے، آسمانی بجلی گرنے کے واقعات کا جمع کردہ ڈیٹا مستقبل میں غیرمعمولی موسمیاتی حالات کے دوران معاون ثابت ہوگا۔
چین کی طرف سے تحفے میں دیے گئے آلات انسٹیٹوٹ آف الیکٹریکل انجینئرنگ چائنیزاکیڈمی آف سائنسزنے تیارکیے ہیں جن کی مالیت 28 کروڑ روپے سے زائد ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق ہر ڈیٹیکٹر 100 مربع کلومیٹر میں آسمانی بجلی کے گرنے کی پیشگی اطلاع دے سکتا ہے، اب تک پاکستان میں آسمانی بجلی گرنے کی پیشگی اطلاع کا جدید نظام موجود نہیں تھا، ان آلات کی قیمت 10لاکھ امریکی ڈالرز (28کروڑ40لاکھ روپے ) کے لگ بھگ ہے۔
محکمہ موسمات کے مطابق آسمانی بجلی خطرات سے دوچارعلاقوں کی نشاندہی مقامی ریڈیو کے علاوہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پربھی کی جائے گی، عوامی سطح پراس تشہیر کے ذریعے علاقے میں رہائش پذیرآبادی کے بچاؤ اوران کے لیے ہرممکنہ حفاظتی اقدامات کواختیارکیا جاسکے گا۔
بھارت سے متصل سندھ کےصحرائی علاقے تھرپارکرمیں چند برسوں کے دوران آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ نومبر2019 کے دوسرے ہفتے میں شدید بارشوں کے دوران تھرپاکرمیں آسمانی بجلی گرنے کے سبب دودرجن سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے اور100 سے زائد مویشی ہلاک ہوئے تھے، سن 2020 میں 22، سن 2021 میں 10، سن 2022 میں 8 جبکہ رواں سال مئی میں بھی آسمانی بجلی گرنے کے نتیجے میں 6 افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔
آسمانی بجلی گرنے کے ان پے درپے واقعات میں گھرکے پالتو جانوروں کی تعداد گزشتہ 8 برسوں کے دوران سیکڑوں میں ہے، لائٹننگ ڈیٹیکٹر میں سینسر لگے ہوتے ہیں، جو بادلوں میں بننے والی آسمانی بجلی کی برقی چمک کو محسوس کرکے اس کی شدت اورگرنے کی جگہ کا تعین کرتا ہے۔