شیخ حسینہ واجد کی خفیہ جیل ’ ہاؤس آف مرر‘ میں 8 سال قید تنہائی سہنے والے بنگلا دیشی بیرسٹر احمد بن قاسم نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں قید میں اذان کی آواز بھی سننے نہیں دی جاتی تھی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق احمد بن قاسم کو ان کے والد اور جماعت اسلامی کے رہنما میر قاسم علی کی وجہ سے اغوا کیا گیا تھا، وہ اپنے والد کا کیس لڑ رہے تھے، جب انہیں اغوا کیا گیا تو اغوا کے 4 دن بعد ان کے والد کو پھانسی دے دی گئی۔
رہائی کے بعد خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیے گئے انٹرویو میں احمد بن قاسم نے بتایا کہ 8سال بعد 5 اگست 2024 کو حسینہ واجد کے استعفے کے بعد مجھے 6 اگست کو رہا کردیا گیا، نوجوانوں کے احتجاج کی وجہ سے میری رہائی ممکن ہوسکی ہے جس کے بعد زندگی میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔
احمد بن قاسم نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد مجھے خفیہ جیل ’ ہاؤس آف مرر ‘ میں رکھا گیا تھا، اس جیل کو بنگلادیش کی فوج چلاتی ہے جہاں کسی بھی قیدی سے کسی کو بھی ملنے نہیں دیا جاتا، مجھے اس جیل میں 8 سال تک قید رکھا گیا، اس دوران میں نے ہتھکڑیوں میں بندھے اور بغیر کھڑکی والے سیل میں وقت گزارا ۔
انہوں نے بتایا کہ گارڈز کو قیدیوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ باہر کیا ہورہا ہے، میں ایک دین دار مسلمان ہوں، قید کے دوران مجھے نماز کے اوقات جاننے سے بھی دور رکھا گیا جب کہ میرے اغوا کو کتنا وقت گزر گیا اس بات کا بھی پتا نہیں چلنے دیا گیا تھا۔
بنگلادیشی وکیل کے مطابق وہاں ہر وقت موسیقی چلتی تھی اور اذان کی آواز بھی سننے نہیں دی جاتی تھی، جب کبھی موسیقی بند ہوجاتی تو درد میں کراہتے قیدیوں کی آوازیں سنائی دیتیں، آہستہ آہستہ مجھے محسوس ہوا کہ قید میں اکیلا نہیں ہوں، وہاں میں نے لوگوں کے رونے، چیخنے اور کراہنے کی آوازیں سنی۔
احمد بن قاسم نے مزید بتایا کہ میرے والد کو پھانسی دیے جانے سے متعلق بھی مجھے 3 سال بعد علم ہوا، وہ بھی جیلر نے غیر ارادی طور پر مجھے بتا دیا تھا۔