بنگلادیش میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کے مظاہروں میں ہلاکتوں کی کل تعداد 100 سے زائد ہوگئی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق جمعے کے روز ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں کم و بیش 75 افراد ہلاک ہوئے جبکہ صرف ڈھاکا شہر میں 52 افراد کی ہلاکتیں ہوئیں۔
خبررساں ایجنسی کے مطابق طلبہ کے احتجاج کے دوران رواں ہفتے اب تک کم از کم 105 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
احتجاج کرنے والے طلبہ نے آج وسطی بنگلا دیش کے ضلع نرسنگدی کی سینٹرل جیل پر حملہ کرکے قیدیوں کو رہا کردیا اور جیل کو آگ لگادی، پولیس ذرائع کے کہنا ہےکہ جیل سے رہا کروائے گئے قیدیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔
دوسری جانب اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے ہلاک ہونے والوں میں نصف سے زائد افراد پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
بنگلادیش میں 1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دیے جانے کے خلاف گزشتہ کئی روز سے طلبہ کا احتجاج جاری ہے اورکوٹہ سسٹم مخالف طلبہ کی پولیس اور حکمران جماعت عوامی لیگ کے طلبہ ونگ سے جھڑپیں ہورہی ہیں۔
بنگلا دیش میں سرکاری ملازمتوں کا 56 فیصد حصہ کوٹے میں چلا جاتا ہے جس میں سے 30 فیصد سرکاری نوکریاں 1971کی جنگ میں لڑنے والوں کے بچوں، 10 فیصد خواتین اور 10فیصد مخصوص اضلاع کے رہائشیوں کے لیے مختص ہے۔
طلبہ کا مطالبہ ہےکہ سرکاری نوکریاں میرٹ پر دی جائیں اور صرف 6 فیصد کوٹہ جو اقلیتوں اور معذور افراد کے لیےمختص ہے اسے برقرار رکھا جائے۔
بنگلا دیش میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم 2018 میں ختم کردیا گیا تھا جس کے بعد ملک میں اسی طرح کے مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ گزشتہ ماہ ہائیکورٹ نے سرکاری نوکریوں میں 1971 کی جنگ میں لڑنے والوں کے بچوں کے لیے 30 فیصد کوٹہ بحال کرنے کا فیصلہ دیا تھا جس کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
دوسری جانب بنگلادیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ’رضاکار‘ قرار دیا۔
خیال رہے کہ بنگلا دیش میں ’رضاکار‘ کی اصطلاح 1971 کی جنگ میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
طلبہ کے احتجاج کو دبانے کے لیے بنگلہ دیش میں انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کردیا گیا ہے، انٹرنیٹ کی بندش پر نظر رکھنے والے ادارے نیٹ بلاکس نے جمعے کے روز بتایا کہ بنگلا دیش بھر میں لگاتار دوسرے روز انٹرنیٹ بند ہے۔