سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کیخلاف درخواست اعتراضات کیساتھ خارج

0 3

سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف دائر درخواست خارج کردی۔

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

مولوی اقبال حیدر نے مؤقف اپنایا کہ میری جانب سے درخواست بروقت دائر کی گئی تھی، اب اس مقدمہ کا نظر ثانی کیس زیر التوا ہے، چاہتا ہوں کہ کسی مقدمے میں اس معاملے کو دیکھا جائے۔

دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ہم سے غیر آئینی کام کیوں کروانا چاہتے ہیں؟ امیدواران کی مرضی ہے سیاسی جماعت میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔

جسٹس امین الدین خان نے مزید کہا کہ مولوی اقبال صاحب آپ پھر اسی طرف جا رہے ہیں جس وجہ سے پابندی لگی تھی۔

بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست رجسڑار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے خارج کر دی۔

سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست
آئینی بنچ نے سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست بھی خارج کر دی۔

دوران سماعت وکیل درخواست گزار نے کہا کہ 90 فیصد سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی ہی نہیں ملتی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو براہ راست سن رہے ہیں اس سے زیادہ کیا رسائی چاہیے؟ آپ تو اپنے ہی ادارے کو برباد کر رہے ہیں، کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 120 ہے اور کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 150 ہے، پتہ نہیں یہ نمبر کہاں سے آتے ہیں۔

بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست بھی خارج کر دی۔

ٹرائل مکمل کرنے کیلئے ٹائم فریم طے کرنے کا کیس
اعلیٰ عدالتی فورمز پر ٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے کی درخواست پر بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ فوجداری قانون سمیت کئی قوانین میں ٹائم لائن موجود ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ٹائم لائن کے لیے پارلیمنٹ سے جا کر قانون سازی کروا لیں۔

درخواست گزار حسن رضا نے کہا کہ ٹرائل مکمل ہوتے ہوتے 20 سے 40 سال لگ جاتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ایسی عمومی باتیں نہ کریں اور الزام نہ لگائیں، سسٹم پرفیکٹ نہیں ہے لیکن پیش رفت ہو رہی ہے، آپ کی درخواست نیشنل جوڈیشل پالیسی سے متعلق ہے، آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست پر کسی کو ہدایت نہیں جاری کریں گے، جہاں اصلاحات ہو رہی ہیں وہاں جاکر شمولیت اختیار کریں، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے تابع ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر ہماری طرف سے بھی سخت ردعمل آیا تو مایوسی پھیلے گی۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی ریفارمز کے لیے لاء اینڈ جسٹس کمیشن موجود ہے، وہاں رجوع کریں۔

بعدازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد اعلیٰ عدالتی فورمز پر ٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے کی درخواست بھی خارج کر دی۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.