سعودی عرب میں رواں سال 100 سے زائد غیر ملکیوں کو تختہ دار پر لٹکایا جاچکا ہے، رواں سال سزائے موت پانے والے غیر ملکیوں کی مجموعی تعداد 101 ہو گئی، جس میں 21 پاکستانی بھی شامل ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے حوالے سے اے ایف پی نے کہا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 16 نومبر کو ایک یمنی شہری کو جنوب مغربی علاقے نجران میں منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں سزائے موت دیدی گئی۔
رپورٹس کے مطابق 2023 اور 2022 میں 34 غیر ملکیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ یہ تعداد گزشتہ تین سالوں کے مقابلے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ای ایس او ایچ آر کے مطابق یہ تعداد اب تک کی سب سے زیادہ ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ سعودی عرب نے ایک سال میں اتنے زیادہ غیر ملکیوں کو سزائے موت دی ہے۔
اپنے سخت تعزیری قوانین کے باعث سعودی عرب کو بین الاقوامی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2023 میں سعودی عرب چین اور ایران کے بعد تیسرے نمبر پر تھا جہاں سب سے زیادہ لوگوں کو سزائے موت دی گئی۔
ای ایس او ایچ آر کا کہنا ہے کہ غیر ملکی قیدیوں کو مملکت میں انصاف تک رسائی میں زیادہ مشکلات پیش آرہی ہیں۔رپورٹس کے مطابق مملکت میں 2024 میں جن غیر ملکی شہریوں کو پھانسی پر لٹکایا جائے گا ان میں پاکستان، یمن، شام، نائجیریا، مصر، اردن اور ایتھوپیا کے شہری شامل ہیں۔
اس سے قبل مملکت میں وزارت داخلہ نے وطن سے غداری اور دہشت گردی پر دو شہریوں پر سزائے موت کا فیصلہ نافذ کیا تھا۔وزارت داخلہ کے مطابق ’سعودی شہری سلطان بن محمد العتیبی اور ترکی بن محمد الحازمی نے دہشت گرد تنظیم سے وابستگی اختیار کرتے ہوئے وطن سے غداری کی‘۔
بیان کے مطابق منحرف فکر کے تحت دونوں شہریوں نے ملک کے استحکام اور رہائشیوں کے امن و امان میں خطرہ بننے کی کوشش کی ہے اور وطن کے خلاف جاسوسی کی۔’عدالت نے دونوں ملزمان کو فساد پھیلانے اور امانت میں خیانت کی وجہ سے سر قلم کرنے کی سزا سنائی تھی‘۔