امریکا میں 5 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، اس دوران ڈیموکریٹک امیدوار اور امریکی نائب صدر کملا ہیرس اور ریپلکن امیدوار، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرنے کیلئے انتخابی مہمات زوروں سے جاری ہیں۔
امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور کس کا پلڑا کہاں بھاری رہے گا اس حوالے سے عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ نے بھی سروے جاری کردیا۔
الجزیرہ کے مطابق امریکی صدارتی انتخابات میں عوامی ووٹ فیصلہ کن نہیں ہوتا بلکہ یہ فیصلہ الیکٹورل کالج کے ذریعے اس بات سے ہوتا ہے کہ کونسے الیکٹرز کس ریاست سے الیکٹورل کالج کی نمائندگی کریں گے اور وہی صدر کا انتخاب بھی کریں گے۔
امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے صدر بننے کیلئے ایک امیدوار کو 538 الیکٹورل ووٹوں میں سے 270 ووٹ درکار ہوتے ہیں، الیکٹورل کالج کے ووٹ ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے تقسیم کیے جاتے ہیں۔
الیکٹورل کالج میں کس کا پلڑا بھاری ہے؟
ڈیلی الیکشن پول ٹریکر 538 کے مطابق اس وقت ہیرس قومی پولز میں آگے ہیں اور انہیں ٹرمپ پر 2.4 فیصد برتری حاصل ہے تاہم 538 ڈیلی الیکشن پولز کی پیشگوئی کے مطابق مقابلہ سخت ہے، ہیرس کے جیتنے کے امکانات 100 میں سے 54 فیصد ہیں تو ٹرمپ کی جیت کے امکانات بھی 46 فیصد ہیں لیکن کچھ ریاستیں صدارتی انتخابات کا رخ بدل سکتی ہیں۔
کونسی ریاستی انتخابات کا رخ بدل سکتی ہیں؟
الجزیرہ کے مطابق امریکی صدارتی انتخابات میں میدان جنگ سمجھی جانے والی سوئنگ اسٹیٹس انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتی ہیں۔
ایک سوئنگ اسٹیٹ کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہاں کی سیاسی حمایت واضح نہیں ہوتی اور کوئی بھی پارٹی نمایاں برتری نہیں رکھتی، اس مرتبہ ان ریاستوں میں ایریزونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، شمالی کیرولائنا، پینسلوینیا اور وسکونس شامل ہیں۔
پچھلے انتخابات میں جارجیا نے تقریباً تین دہائیوں بعد اپنا رنگ ریپبلکن ریڈ سے ڈیموکریٹک بلو میں تبدیل کیا تھا اور ایریزونا میں ڈیموکریٹس نے 0.3 فیصد پوائنٹس کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔
عرب ٹی کا سروے بتاتا ہے کہ آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات میں ٹرمپ اور ہیرس کے درمیان سوئنگ اسٹیس میں سخت مقابلہ ہونے جا رہا ہے، کیونکہ عوامی ووٹ نہیں بلکہ الیکٹورل کالیج ہی نئے صدر کا انتخاب کرتا ہے۔