باخبر ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف کوئی کارروائی زیر غور نہیں ہے۔
ذرائع نے سابق چیف آف آرمی اسٹاف کے خلاف ممکنہ کارروائی کے بارے میں سوشل میڈیا پر قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا۔
تاہم، جب اس معاملے پر آئی ایس پی آر سے رابطہ کیا گیاتو کوئی جواب نہیں ملا، اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پھیلنے والی قیاس آرائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ذرائع نے کہا کہ یہ تمام قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔
ذرائع نے مزید کہا کہ واٹس ایپ گروپ کے ذریعے پھیلائی گئی ’’انٹیلی جنس رپورٹ‘‘ کے عنوان سے وہ سوشل میڈیا پوسٹ سراسر جعلی ہے جس میں جنرل باجوہ کے خلاف ممکنہ طور پر جنرل (ر) فیض جیسی کارروائی کی بات کی گئی ہے۔
یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ جنرل فیض کی گرفتاری کے پس منظر میں، جنرل باجوہ کی رہائش گاہ کے ارد گرد اضافی سکیورٹی تعینات کردی گئی ہے اور ممکنہ طور پر ان کے خلاف مستقبل میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔
یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ جنرل باجوہ نے بغیر کسی تبصرے کے اضافی تعینات کردہ سکیورٹی کو خاموشی سے قبول کر لیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ باتیں سراسر غلط ہیں۔
ایک اور ذریعے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جنرل باجوہ دبئی میں ہیں اور آئندہ چند روز میں واپس آجائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر ’’جعلی‘‘ پوسٹ کو ریٹائرڈ فوجی افسر نے شیئر کیا ہے جو بیرون ملک مقیم ہے اور فوج مخالف مہمات چلانے کے لیے پہچانا جاتا ہے۔
اس ریٹائرڈ فوجی افسر کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت بغاوت پر اکسانے کے جرم میں 14 سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ اسے پاکستان آرمی ایکٹ، 1952 کے تحت سزا سنائی گئی تھی اور ان پر فوجی اہلکاروں میں بغاوت پر اکسانے اور جاسوسی سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ، 1923 کی دفعات کی خلاف ورزی اور ریاست کے تحفظ اور مفاد کیخلاف اقدامات کرنے کا الزام تھا۔
واضح رہے کہ چند روز قبل فوجی حکام نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو گرفتار کیا تھا۔
اسلام آباد میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی سے جڑے کیس میں بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے کے علاوہ، جنرل فیض کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا بھی سامنا ہے کیونکہ آئی ایس پی آر نے ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل فیض حمید کی جانب سے پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کی متعدد واقعات کا حوالہ دیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان اور موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف جنرل باجوہ پر تنقید اور ان کے احتساب کا مطالبہ کرنے کے معاملے پر متفق ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ آیا وزیر دفاع یہ کام خود کر رہے ہیں یا حکومت یا نون لیگ کی قیادت نے انہیں باجوہ پر تنقید کی ذمہ داری دی ہے تاکہ موجودہ آرمی چیف پر اپنے پیشرو کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔
تاہم، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے جنرل باجوہ کے بارے میں خواجہ آصف کے بیان کی تردید کی ہے۔