سابق نگراں وزیر تجارت ڈاکٹر گوہر اعجاز نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی پی پیز معاملے پر کہا ہے کہ 3 پلانٹس سے زیرو یونٹ پر 2 ہزار کروڑ روپے وصول کیے گئے ہیں۔ پورے ملک کے چیمبرز آف کامرس کے نمائندے آج موجود ہیں۔ بزنس کمیونٹی چاہتی ہے کہ عوام خوش ہوں گے تو کاروبار چلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 40 لوگ جنہوں نے آئی پی پیز لگائے ہیں، سب بزنس کمیونٹی کہہ رہی ہے ہم 24 کروڑ عوام کیساتھ ہیں، ان 40 لوگوں کیساتھ نہیں ہیں۔ بجلی کا ریٹ 60 روپے،کمرشل ریٹ 80 روپے ہے اس پر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ 2 لاکھ کروڑ ہم کپیسٹی چارجز کی مد میں دے رہے ہیں۔ جتنی بجلی بنائیں اس کا پیسہ لیں۔ کپیسٹی پیمنٹ کے نام پر بند کیا جائے۔ آئی پی پیز اور جو پلانٹ بند ہیں ان کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے۔
ایسے 3 پلانٹ ہیں جنہوں نے ایک یونٹ نہیں بنایا اور 2 ہزار کروڑ لے لیے۔ سب کو کہتا ہوں پٹیشن سائن کرتے ہیں۔ 6 ماہ سے زائد نگراں سیٹ اپ کا حصہ رہا، صنعت و کامرس کی بہتری کے لیے کام کیا۔ اس سال ساڑھے 3 ارب ڈالر برآمدات بڑھیں۔ سبسڈی کا مقدمہ لڑتا رہا۔
یکم جولائی کو بجلی کے حوالے سے آواز اٹھائی تھی۔ سپریم کورٹ پہ سارے پاکستان کو اعتبار ہے۔ سپریم کورٹ سے آڈٹ کی درخواست کریں گے۔ اگر حکومت کہہ دیتی تو صدر کے پاس نہ جاتے۔اگر فرانزک ہوا تو ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا۔
چین ہمارا دوست ہے کیا اس نے کہا ہے کہ یہ پلانٹس نہ چلائیں۔ ہم ان پلانٹس کو 12،15 فیصد پر چلا رہے ہیں۔ جب 33 روپے پر بجلی بن رہی تو 100 روپے کیوں دے رہے ہیں؟۔ پہلے صنعت کا مقدمہ جیتا آج عوام کا مقدمہ لے کر نکلا ہوں۔