الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی تردید کی

0 25

اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ خصوصی نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر عمل کرے گا لیکن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز دراصل سپریم کورٹ کے فیصلے کی واضح تردید ہے۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران اور اپنے فیصلے میں کہہ دیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے 13 جنوری 2024 کے (پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے سے متعلق) فیصلے کی غلط تشریح کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے مذکورہ امیدواروں کو غلطی سے آزاد امیدوار قرار دیا۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر دو روز تک غور و خوص کے بعد پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو درست قرار نہیں دیا۔

جس کیخلاف پی ٹی آئی مختلف فورمز پر گئی اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو اپ ہولڈ (برقرار) کیا گیا۔ چونکہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن درست نہیں تھے جس کے منطقی نتائج میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت بلّے کا نشان واپس لیا (وتھ ڈرا) گیا، لہٰذا الیکشن کمیشن پر الزام تراشی انتہائی نامناسب ہے۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے پیرا نمبر 7 اور 8 کا حوالہ دیے بغیر اپنی پریس ریلیز میں اپنا موقف واضح کیا ہے اور ساتھ ہی اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل میں آئی، سنی اتحاد کونسل کی یہ اپیل مسترد کر دی گئی۔

پی ٹی آئی اس کیس میں الیکشن کمیشن میں فریق تھی اور نہ ہی پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں فریق تھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں پیرا نمبر 7 اور 8 ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں: پیرا نمبر 7: 2024 کے عام انتخابات کے مخصوص حقائق اور حالات میں، یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مذکورہ بالا 80 کامیاب امیدواروں (اب ارکان قومی اسمبلی) وہ (39 ایسے جن کی تفصیلات اس فیصلے کے ضمیمہ اول میں درج ہیں) جنہیں کمیشن نے فہرست میں مذکورہ بالا کالموں میں سے کسی ایک میں بطور پی ٹی آئی رکن ظاہر کیا ہے، وہ کامیاب امیدوار تھے اور ہیں اور درج بالا پیرا نمبر پانچ کی رو سے اور آئین کے آرٹیکل 51 کے لحاظ سے یہ نشستیں پی ٹی آئی نے حاصل کی ہیں۔

پیرا نمبر 8: 2024 کے عام انتخابات کے مخصوص حقائق اور حالات میں مزید حکم دیا جاتا ہے کہ مذکورہ بالا 80 میں سے باقی 41 کامیاب امیدوار (جن کی تفصیلات اس فیصلے کے ضمیمہ دوم میں درج ہیں) 15 روز کے اندر دستخط اور تصدیق شدہ بیان جمع کرائیں کہ انہوں نے متعلقہ سیاسی جماعت کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن سات روز کے اندر اس سیاسی جماعت (سول اپیل نمبر 333 برائے 2024ء سے جڑی سیاسی پارٹی) کو نوٹس جاری کرے جو اس بات کی تصدیق کرے کہ مذکورہ امیدوار نے اس پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا۔

سیاسی جماعت اپنے طور پر کسی بھی وقت تصدیق کیلئے تحریک فائل کر سکتی ہے۔ اس تصدیق کے بعد وہ امیدوار مذکورہ بالا پیرا نمبر پانچ اور آرٹیکل 51؍ کے مقصد کے تحت اس سیاسی جماعت کے امیدوار کی حیثیت سے رکن سمجھا جائے گا۔

الیکشن کمیشن اس کے بعد اپنی ویب سائٹ پر کامیاب ہونے والے امیدواروں (جو اب ارکان قومی اسمبلی ہیں) کی فہرست سیاسی جماعت کی جانب سے تصدیق کیے جانے کی آخری تاریخ پر سات روز میں جاری کرے گا، اور اس کے بعد کمیشن اس عدالت میں تعمیل کی رپورٹ جمع کرائے گا۔

پیرا نمبر 7 کے جواب میں الیکشن کمیشن نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ جن 39؍ ارکان قومی اسمبلی کو پی ٹی آئی کا رکن قومی اسمبلی قرار دیا گیا ہے انہوں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی ظاہر کی تھی جبکہ کسی بھی پارٹی کا امیدوار ہونے کیلئے پارٹی ٹکٹ اور ڈکلیریشن ریٹرننگ افسر کے پاس جمع کرانا ضروری ہے جو ان امیدواروں نے جمع نہیں کرایا تھا۔ لہٰذا، ریٹرننگ افسران کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ انہیں پی ٹی آئی کا امیدوار قرار دیتے۔

پیرا نمبر 8 کے جواب میں الیکشن کمیشن نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ جن 41 امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا ہے انہوں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں پی ٹی آئی کا ذکر کیا اور نہ ہی پارٹی سے وابستگی ظاہر کی، نہ ہی کسی پارٹی کا ٹکٹ جمع کرایا۔ لہٰذا، ریٹرننگ افسران نے انہیں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی۔

الیکشن جیتنے کے بعد، قانون کے تحت تین روز کے اندر ان ارکان قومی اسمبلی نے رضاکارانہ طور پر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔

سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل میں آئی، سنی اتحاد کونسل کی یہ اپیل مسترد کر دی گئی، پی ٹی آئی اس کیس میں نہ تو الیکشن کمیشن میں بطور فریق تھی اور نہ ہی پشاور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں بطور فریق تھی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.