شفا کیوں نہیں دیتے/مظہر برلاس

شفا کیوں نہیں دیتے/مظہر برلاس

0 416

کاکول اکیڈمی کے پہلے بیج میں شامل ضلع اٹک کے ایک گاؤں کے جہاں داد خان ترقی کرتے کرتے لیفٹیننٹ جنرل بنے۔ ضیاالحق کا دور آیا تو انہیں سندھ کا گورنر بنا دیا گیا ۔ جنرل جہاں داد خان اقتدار کی باریکیوں سے پہلے ہی آگاہ تھے کیونکہ وہ مغربی پاکستان کے گورنر نواب ملک امیر محمد خان کے ملٹری سیکرٹری رہ چکے تھے ۔ یوں گورنر شپ کو قریب سے دیکھنے کا تجربہ انہیں پہلے سے تھا، اسی لئے وہ سندھ کے کامیاب گورنر رہے۔ جنرل جہاں داد خان نے دوران ملازمت شاید کہیں فیض احمد فیض کا یہ شعر پڑھ لیا ہو کہ
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
یہ اپریل 1984 کی بات ہے ، صدر پاکستان کراچی آئے تھے۔ رات کا کھانا گورنر سندھ کے ساتھ تھا۔ کھانے پرجب دونوں کو تنہائی ملی تو جنرل جہاں داد خان نے غیر متوقع طور پر جنرل ضیاالحق سے پوچھا آپ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کریں گے ؟ ضیا الحق کے لئے یہ سوال حیران کن تھا۔ وہ ششدر رہ گئے اور سوچ میں پڑ گئے۔ ڈیڑھ دو منٹ سکوت رہا تو پھر ضیاالحق نے جنرل جہاں داد سے پوچھا، آپ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کریں گے ؟ جواباً جنرل جہاں داد نے کہا کہ ’’میں خدمت خلق کروں گا ۔ میں نے سر گنگا رام ٹرسٹ، گوجرانوالہ میں مراد ٹرسٹ اور کراچی میں ایدھی فاؤنڈیشن کا بغور جائزہ لیا ہے۔ لہذا میں ٹرسٹ کے تحت آنکھوں کا ایک اسپتال بناؤں گا۔ میں نابینا لوگوں کی اندھیری دنیا کو روشن کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ بھی میرے ٹرسٹی بنیں‘‘۔ 1985ءمیں اسپتال کے سلسلے میں پہلی باقاعدہ میٹنگ ہوئی اور کام شروع کرنے کا ارادہ کر لیا گیا ۔ راولپنڈی میں ایوب پارک کے پاس الشفا آئی ٹرسٹ ہاسپٹل کی تعمیر شروع ہو گئی تو جنرل جہاں داد خان نے اپنی ساری پنشن اسی اسپتال کی تعمیر میں خدمت خلق کے جذبے سے خرچ کر دی۔ اسپتال کی تعمیر میں سیٹھ داؤد نے بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا۔ خیر اسپتال بن گیا اور 1991ءمیں باقاعدہ علاج معالجہ شروع ہو گیا۔ تب سے لے کر آج تک بینائی سے محروم لاکھوں افراد کی آنکھوں میں روشنی بحال کی جا چکی ہے۔
چند برس پہلے محترم نذیر ناجی صاحب نے مجھے اس اسپتال کی افادیت کے بارے میں بتایا تو دل چاہا کہ کسی دن اس اسپتال کو دیکھ آؤں کہ خدمت خلق کے لئے چلنے والے اداروں کو دیکھنا میرے لئے سکون قلب کا باعث ہے۔ کافی عرصہ بیت گیا پھر سوچا کہیں یہ آرزو حسرت میں نہ بدل جائے یہی سوچ کر بیگ راج سے رابطہ کیا۔ بیگ راج نے پچھلے بارہ پندرہ برس سے اپنی خدمات الشفا ٹرسٹ کے لئے مختص کر رکھی ہیں۔ چند روز پہلے اس شاندار اسپتال میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اسی اسپتال میں بچوں کے لئے الگ سے ایک چلڈرن آئی اسپتال بنایا گیا ہے جو آنکھوں کے حوالے سے بچوں کا پورے ایشیامیں سب سے بڑا اسپتال ہے۔ اسی اسپتال میں میری ملاقات الشفا آئی ٹرسٹ کے موجودہ چیئرمین جنرل رحمت خان سے ہوئی۔ اس ملاقات میں کچھ لمحوں کے لئے ایگزیکٹو ڈائریکٹر برگیڈیئر رضوان اصغر شامل ہوئے مگر پھر کچھ ہی دیر بعد میں اور جرنیل اکیلے تھے۔ لائل پور کے رہنے والے جنرل رحمت سے پنجابی میں گفتگو شروع ہوئی تو اس کی خوشبو ہمیں اجداد کی دھرتی میں لے گئی۔ جنرل رحمت خان اور ان کے اہل خانہ سب کمال کے لوگ ہیں۔ جنرل رحمت کو ٹرسٹ کا چیئرمین بنے ابھی دو تین روز ہوئے تھے کہ گھر والوں نے پوچھا آپ کو جو لوگ ملنے آتے ہیں ان کو چائے کہاں سے پلاتے ہیں؟ جنرل نے کہا ہمارے آفس میں سسٹم موجود ہے۔ اس پر گھر والوں نے مزید تفتیش کرتے ہوئے پوچھا، خرچہ کون کرتا ہے؟ جنرل کے منہ سے نکلا، آفس۔ بس پھر گھر میں جنرل کے لئے عدالت لگ گئی اور انہوں نے جنرل رحمت کو بہت باتیں سنائیں۔ کسی نے کہا، آپ کو کوئی خیال نہیں،آپ ٹرسٹ کے پیسوں سے چائے پیتے ہیں۔ جنرل گھر سے نکلا ،اسپتال آیا، آفس والوں سے دو روز کی چائے کا خرچہ پوچھا،وہ پیسے آفس میں جمع کرائے اور اس دن سے لے کر آج تک جنرل رحمت خان چائے تو درکنار پانی کا گھونٹ بھی ٹرسٹ کے پیسوں سے نہیں پیتے، مہمانوں کی سیوا بھی اپنی جیب سے کرتے ہیں۔ شخصی خوبیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے جنرل رحمت خان کی انتظامی خوبیاں بھی شاندار ہیں۔ انہی کے عہد میں چلڈرن آئی اسپتال بنا۔ جنرل رحمت خان کی نگرانی اور چیکنگ کے اپنے طریقہ کار ہیں۔ ایک رات ساڑھے نو بجے وہ ایک وارڈ میں جا کرخاموشی سے بیٹھ گئے۔ انہوں نے دیکھا ایک بیڈ کے پاس ٹشو گرا ہوا ہے۔ جنرل نے وارڈکے انچارج کو فون کیا اور کہا کہ تمہارے زیر نگرانی جو وارڈ ہے اس میں کہیں ٹشو گرا ہوا ہے کہیں کاغذ۔ اس پر وارڈ انچارج بولا ، یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم صفائی کا بہت خیال رکھتے ہیں،اس پر جرنیل نے کہا یہ ہو چکا ہے، میں وارڈ میں بیٹھا ہوں اور میرے سامنے ایک بیڈ کے پاس ٹشو گرے ہوئے ہیں۔ بس اس دن کے بعد سے اسپتال میں کوئی کوتاہی نہیں برتتا۔ اسپتال میں جنرل رحمت سے قبل مریضوں کی آنکھوں میں انڈین لینز ڈالے جاتے تھے جو نسبتاً سستے تھے۔ مگر جنرل نے کہا نہیں،آج کے بعد دنیا کے سب سے بہترین لینز ڈالے جایا کریں گے۔ ڈاکٹروں کی میٹنگ میں جنرل رحمت نے ایک اور فیصلہ بھی سنایا کہ آج سے پہلے جن بچوں کو آنکھ کا کینسر تھا ان کا عارضی علاج ہوتا تھا مگر آج کے بعد ان بچوں کا علاج مستقل ہوا کرے گا خواہ وہ کتنا ہی مہنگا کیوں نہ ہو۔
سربراہ باصلاحیت ہو تو اس کے کارنامے بولتے ہیں۔اب الشفاآئی ٹرسٹ 25 لاکھ سالانہ مریضوں کا مفت علاج کیا کرے گا۔ الشفا آئی ٹرسٹ نے اپنے دائرے کو پھیلاتے ہوئے چکوال،کوہاٹ، مظفرآباد اور سکھر میں اسپتال بنا دیے ہیں جہاں مریضوں کا علاج ہو رہا ہے۔ جب کہ کوئٹہ اور گلگت میں اسپتالوں کے لئے کام جاری ہے۔ لاہور اور کراچی میں نئے ڈیپارٹمنٹس بن رہے ہیں جبکہ الشفا آئی ٹرسٹ نے علاج کی غرض سے موبائل سروس کا آغاز بھی کر دیا ہے۔جنوبی پنجاب کے لوگوں کے لئے اسپتال قائم کرنے کی غرض سے ملتان کے آس پاس جگہ تلاش کی جا رہی ہے۔الشفا آئی ٹرسٹ والوں نے فیض احمد فیض کا شکوہ ختم کر دیا ہے اور بقول ہیرا لعل فلک دہلوی
حال بیمار کا پوچھو تو شفاملتی ہے
یعنی اک کلمہ پرسش بھی دوا ہوتا ہے
(بشکریہ جنگ)

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.