عمران خان کی آڈیو لیک، جس میں وہ امریکی کانگرس وومن میکسین واٹرز سے درخواست کر رہے ہیں کہ اگر آپ صرف ایک اسٹیٹمنٹ جاری کر دیں کہ پاکستان میں جو ہو رہا ہے (بقول عمران خان پی ٹی آئی پر کریک ڈائون ہورہا ہے)، وہ بنیادی انسانی حقوق، آئین اور قانون کے خلاف ہے اور سب کچھ آئین کی روشنی میں ہونا چاہئے تو اس سے پاکستانی حکومت پر بڑا اثر پڑے گا۔ ایک طرف عمران خان کی یہ آڈیو لیک ہے اور دوسری طرف وہ سائفر ہے جسے وہ ایک جلسے میں لہرا لہرا کر کہہ رہے تھے کہ مجھے وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کی سازش امریکہ کررہا ہے کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا کہ میں اقتدار میں رہوں۔ ایک طرف عمران خان خود امریکی سفارتکاروں اور وفود سے ملتے رہے بلکہ امریکہ میں اپنی لابنگ کے لئے کروڑوں خرچ کرتے رہے اور دوسری طرف وہ یہ کہتے سنائی دیے کہ اپوزیشن کے لوگ امریکی سفارتکاروں سے ملتے ہیں، جسے وہ رجیم چینج کی بنیاد بنا رہے تھے۔ عمران خان صاحب گرفتاری دینے سے انکاری ہیں، زمان پارک میں تحریک انصاف کے حامی پٹرول بم پھینکتے ہیں، نو مئی کو ملک میں انتشار پھیلایا جاتا ہے اور پھر اُس روز کے واقعات کی مذمت میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے اور دوسری طرف عمران خان آئین و قانون کی بات کرتے ہیں۔ عمران خان صاحب کے یہ چند یوٹرنز ہیں جو صرف امریکہ، رجیم چینج اور ایبسلوٹلی ناٹ سے ایبسلوٹلی پلیز یا ایبسلوٹلی پلیس تک کا سفر دکھاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کا کوئی مستقل بیانیہ نہیں رہا اور نہ ہی ان کی حکمت عملی میں کبھی کوئی استحکام نظر آیا ۔ کبھی وہ مقتدرہ کے خلاف جارحانہ رویہ اپناتے ہیں، اعلیٰ قیادت پر بلا جواز الزام عائد کرتے ہیں، میر جعفر اور میر صادق جیسے القابات سے نوازتے ہیں اور کبھی ملک میں انتخابات کے جلد انعقاد کے لئے مقتدرہ سے مدد مانگتے ہیں۔ عمران خان سول بالادستی کی بات بھی کرتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ غیر جمہوری قوتیں اُن کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کریں۔ عمران خان نے اور ان کے حامیوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا منفی امیج پیش کیا ہے۔ سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی باتیں کرنے کے بجائے وہاں کرپشن کا ذکر کرتے رہے۔ آج بھی کروڑوں روپیہ خرچ کرکے مغرب میں اپنے حق میں اور پاکستان کے خلاف لابینگ کر رہے ہیں تاکہ اقتدار کے لئے ان کا راستہ آسان اور ہموار ہوسکے۔ کرپشن کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دینے والے حکمراں کے اب خود کرپشن کے قصے مشہور ہو رہے ہیں جس میں کیس NCAوالے 190ملین پائونڈ والے کیس میں صاف نظر آتا ہے کہ اُنہوں نے ملکی خزانے کو 190ملین پائونڈ کا نقصان پہنچایا ہے۔
یہ تو واضح نظر آ رہا ہے کہ عمران خان اب ایک ایسی راہ پر چل نکلے ہیں جس میں اُن کے دو ہی ہدف ہیں۔ ایک تو خود کو کیسوں سے بچانا اور دوسرا ہر قیمت پر اقتدار میں واپس آنا۔ نو مئی کے واقعات واضح کرتے ہیں کہ ان دونوں اہداف کے حصول کےلئے عمران خان کس حد تک جا سکتے ہیں۔ پھر وہ کسی کے ساتھ بیٹھنا یا حقیقی طور پر ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی وہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت نیچے لانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ملک کی بہتری انہی دونوں عوامل میں ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کم ہو اور گرینڈ ڈائیلاگ کے ذر یعے آگے کا راستہ نکالا جائے۔ لیکن اقتدار سے نکلنے کے بعد نہ ہی اُنہوں نے اپوزیشن کا کردار ادا کرنا مناسب سمجھا اور نہ ہی پارلیمان کے استحکام کی کوئی کوشش کی۔ سیاسی عدم استحکام سے ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ پھر کبھی استعفے منظور کرنے کی درخواست دیتے رہے اور کبھی نامنظور کرنے کی اور پھر یہ تاثر بھی ملک کے لئے نقصان دہ ہے کہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر عدلیہ جانبدارانہ کردار ادا کر رہی ہے۔
عمران خان ایک پاپولر لیڈر ہیں اور پاپو لسٹ بھی روز افزوں مہنگائی اور معاشی بدحالی میں خان صاحب کا براہِ راست ہاتھ ہے کیونکہ پٹرول پر سبسڈی دینے کی وجہ سے پاکستان کیلئے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی مشکل ترین بنا دی گئی، رہی سہی کسر اُن کی طرف سے ملک میں پھیلائے جانے والے سیاسی عدم استحکام نےپوری کر دی۔ سیاسی عدم استحکام کسی بھی ملک کی معیشت کے لئےزہرِ قاتل ہے لیکن اس سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے خان صاحب کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ پھر اُن کے وزیر خزانہ شوکت ترین کی وہ آڈیو لیکس بھی ریکارڈ پر ہیں جس میں وہ پنجاب اور کے پی کے وزرائے خزانہ کو کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔ عمران خان پاپولر سے زیادہ پاپولسٹ لیڈر ہیں جنہوں نے ہمیشہ نفرت کی سیاست کی۔ خان صاحب کے دورِ حکومت میں جب اپوزیشن رہنمائوں کی آڈیو لیکس کی جاتی تھی، اُن پر مقدمات بنائے جاتے تھے، اُن کی گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی تھیں تو خان صاحب اس سارے عمل کا دفاع کرتے تھے لیکن اب جب خود پر آئی ہے تو وہ اپنے غلطیاں ماننے کو بھی تیار نہیں۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے عمل نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔ اور اب اقتدار سے باہر ہونے کے بعد بھی وہ تضادات اور سیاسی تقسیم کو فروغ دے کر ریاست پر براہِ راست حملے کر کے ملک اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ماضی میں جب بھی کوئی حکمراں اقتدار سے ہٹا تو اُس نے ایسا طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جو ملک کے لئے نقصان کا باعث ثابت ہو۔ عمران خان لیکن ہر حال میں اپنا کھویا ہوا اقتدار واپس چاہتے ہیں اس لئے وہ مقتدرہ سے بھی اور اُسی امریکہ سے بھی جس کو وہ ایبسلوٹلی ناٹ کہنے کے بڑے دعوے کرتے تھے، اب ایبسلوٹلی پلیز کی گردان کرکے اپنے حق میںا سٹیٹمنٹ لینا چاہتے ہیں۔
Next Post