فیصلہ کن ہفتہ/نسیم شاہد

فیصلہ کن ہفتہ/نسیم شاہد

0 253

عید گزر گئی اب سیاست کی گرم بازاری کا پھر سے آغاز ہو جائے گا۔ یہ ہفتہ ویسے بھی بہت اہم ہے سپریم کورٹ نے 27 اپریل کو ایک بار پھر یہ حکم دے رکھا ہے کہ الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے دیئے جائیں جبکہ سیاسی جماعتوں کو الیکشن کی تاریخ پر کسی متفقہ فیصلے کے لئے بھی یہی تاریخ دے رکھی ہے۔ عید کے دنوں میں تھوڑی بہت سیاسی گرما گرمی تو اس موضوع پر رہی ہے اور یہ خبریں بھی آئیں کہ حکومت نے تحریک انصاف سے رابطہ کیا ہے۔ تاہم خود پی ڈی ایم کے اندر اس حوالے سے چونکہ اتفاق رائے نہیں اس لئے یہ بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دیتی۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن تو عمران خان کو سرے سے اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ ان سے مذاکرات کئے جائیں تو کہتے ہیں جسے نا اہل ہونا چاہئے اس سے مذاکرات کے لئے کہا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری انہیں منانے کے لئے ڈیرہ اسماعیل خان گئے مگر جب واپس آئے تو ان کے خیالات بھی بدلے ہوئے تھے۔ اُدھر سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کے لئے اپنا حکم برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ حکم واپس لینا کوئی مذاق نہیں۔ یوں دیکھا جائے تو اس ہفتے کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو جائے گا۔ انتخابات ہوں گے یا قومی انتخابات کے لئے کسی منعقدہ تاریخ پر اتفاق ہو جائے گا۔ پنجاب میں انتخابات کرانے کا فیصلہ برقرار رہا تو بعض انہونے واقعات بھی ہو سکتے ہیں۔ حکومت اگر یہ حکم نہیں مانتی تو وزیر اعظم اور کابینہ کی نا اہلی بھی ہو سکتی ہے۔ اس بار یہ بھی ممکن نہیں کہ حکومت قومی اسمبلی سے قرارداد منظور کرا کے رقم دینے سے انکار کر دے، کیونکہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ اگر کابینہ کا منظور کردہ کوئی فنانس بل قومی اسمبلی سے مسترد ہوتا ہے تو یہ بات عدم اعتماد کے زمرے میں آتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کو اسمبلی کا اعتماد حاصل نہیں اور وہ اپنی اکثریت کھو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں پچھلی مرتبہ کی قرارداد کو ایک غلطی قرر دے کر صرف نظر کیا تھا مگر اس بار شاید ایسا نہ ہو۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اس کیس کا فیصلہ عید سے پہلے کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پھر اٹارنی جنرل اور سیاسی جماعتوں کے وکلاء کی استدعا پر انہوں نے عید کے بعد کی تاریخ دے دی۔ 27 اپریل کی سماعت اس کیس کے حتمی فیصلے کی بنیاد بن سکتی ہے۔ حکومت کی نیت اگر ٹھیک ہو اور وہ اپنی آئینی مدت کے بعد انتخابات کرانے پر رضا مند ہو جائے تو معاملہ بآسانی نمٹ سکتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی اتحاد انتخابات کی تاریخ دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ چاہے وہ دو سال بعد کی تاریخ ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وہ نکتہ ہے جو تحریک انصاف کے لئے پریشانی کا باعث ہے عمران خان بار بار یہی کہتے ہیں کہ حکومت اکتوبر میں بھی انتخابات کرانے کو تیار نہیں اور یہ غیر آئینی طور پر انتخابات کو ملتوی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ کے حکم سے کوئی متفقہ تاریخ طے ہو جاتی ہے اور سارے فریق اس پر دستخط کر دیتے ہیں تو اس سے ایک بڑی بے یقینی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ حکومتی اتحاد یہ سمجھتا ہے کہ اس نے مشکل حالات میں جو حکومت سنبھالی ہے اس کا دورانیہ کم از کم دو تین سال ہونا چاہئے تاکہ ہم معیشت کو بہتر کر کے انتخابات میں جائیں۔ فی الوقت تو انتخابات میں جانا خودکشی کے مترادف ہے کیونکہ تحریک انصاف کی مقبولیت اندھے کو بھی نظر آ رہی ہے۔ تاہم یہ ایک خواہش ہو سکتی ہے، آئینی طور پر اس کی گنجائش کیسے نکالی جائے، یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب خود پی ڈی ایم کے پاس بھی نہیں۔ سپریم کورٹ اس نکتے پر بالکل واضح ہے کہ پنجاب میں انتخابات 90 دنوں میں ہونے چاہئیں اور جب آئینی مدت مکمل ہو جائے تو قومی اسمبلی اور باقی دو صوبوں کے انتخابات بھی منعقد ہوں، اس حوالے سے وہ کسی نظریہئ ضرورت کی قائل نظر نہیں آتی۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات نہ کرا کے حکومت نے خود کو ایک ایسی صورت حال میں کھڑا کیا ہے جہاں سے نکلنے کا بظاہر کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ یعنی یہ ممکن نہیں کہ سپریم کورٹ اپنا حکم واپس لے لے اور حکومت کو کھلی چھوٹ دیدے کہ وہ جب اس کی مرضی ہو انتخابات کی تاریخ دے۔ جج صاحبان کو جتنا بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جائے، آڈیو کالز سامنے لائی جائیں، استعفوں کے مطالبے کئے جائیں۔ اس سے کچھ نہیں ہوگا اصل چیز وہ کیس ہے جو اس وقت سپریم کورٹ میں موجود ہے اور جس میں یا تو عمل ہوگا یا پھر توہین عدالت کی کارروائی ہو گی۔ تیسری صورت وہی ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کی کسی تاریخ پر متفق ہو جائیں اور سپریم کورٹ اس تاریخ پر اپنی مہر ثبت کر دے۔
سیاسی عمل کو کسی مصنوعی طریقے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں ان میں عوام کی خواہش بھی یہی ہے کہ انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ ایک نئی حکومت قائم ہو اور ان کے مسائل حل ہو سکیں۔ یہ مسائل ہٹ دھرمی یا طاقت کے بل بوتے پر حل نہیں ہو سکتے۔ حکومت نے سپریم کورٹ سے محاذ آرائی کر کے ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں کی۔ جس فیصلے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی وہ اس وقت بھی ایک حقیقت ہے اور اس پر عملدرآمد نہ کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ملک کی سب سے بڑی عدالت کو دباؤ میں لانے کی خواہش احمقانہ ہے۔ ایک ادارے کے طور پر اس کا تحفظ کرنا خود ججز کی ذمہ اری ہے اگر سپریم کورٹ کے حکم پر بھی عمل نہیں ہوتا پھر ایک انارکی پھیلے گی، جو ملک کے لئے تباہ کن ثابت ہو گی۔ یہ ہفتہ ملکی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ہوشمندی سے کام نہ لیا گیا اور فیصلے اپنے مفادات کی بجائے ملکی مفاد میں نہ کئے گئے تو بحران میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں لچک کا مظاہرہ کریں۔ انتخابات ایک ناگزیر ضرورت ہیں۔ مدت میں کمی یا اضافے پر بات ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی فریق یہ چاہتا ہے کہ اس پر بات ہی کی جائے تو یہ اس کی ایک ایسی منفی خواہش ہے جسے موجودہ حالات میں احمقانہ قرار دیا جا سکتا ہو۔ سپریم کورٹ نے ایک بہت اچھا موقع فراہم کیا ہے اور بحران کے حل کا راستہ بھی یہی ہے کہ افہام و تفہیم کے مسئلے کا حل نکالا جائے اگر مولانا فضل الرحمن کی سوچ اپنائی جاتی ہے تو اس کے نتائج مثبت نہیں منفی برآمد ہوں گے۔ مذاکرت میں مسئلے کا حل ہے اور اس میں کسی فریق کو رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.