یہ الفاظ تو بہت سادہ ہیں لیکن غور کریں تو ان میں بہت گہرائی ہے۔آپ کو یہ بتانا سب سے زیادہ ضروری ہے کہ یہ وہ الفاظ ہیں جن سے بلوچ طلبا کی جبری گمشدگی کے بارے میں قائم کئے گئے عدالتی کمیشن کی رپورٹ کا آغاز ہوتا ہے ۔یہ کمیشن تین اکتوبر 2022ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے حکم پر قائم کیا گیا۔
قومی اسمبلی کے رکن سردار اخترمینگل اس کمیشن کے کنوینر ہیں جبکہ ارکان میں رضا ربانی، اسد عمر، سنیٹر کامران مرتضیٰ، سنیٹر مشاہد حسین، افراسیاب خٹک، سابق چیف سیکرٹری بلوچستان ناصر کھوسہ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کُرد، لمز لاہور کی پروفیسر عاصمہ فیض، سیکرٹری داخلہ حکومت پاکستان، سیکرٹری ہیومن رائٹس حکومت پاکستان اور سیکرٹری سینٹ آف پاکستان شامل ہیں ۔کمیشن نے فروری 2023ء میں اپنی رپورٹ مکمل کرکے اسلام آباد ہائیکورٹ کو پیش کر دی لیکن اس رپورٹ کے بارے میں مکمل خاموشی ہے اور کارروائی آگے نہیں بڑھی۔ اس کمیشن کی رپورٹ کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے۔
’’پاکستان ایک ایسے جمہوری عمل کی تخلیق ہے جس میں ووٹ کے ذریعہ حق خود ارادیت کا اظہار کیا گیا۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایک سچے آئین پسند تھے جو شخصی آزادیوں، قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق پر یقین رکھتے تھے انسانی حقوق کے بارے میں ان کا عزم اتنا مضبوط تھا کہ ستمبر 1929ء میں انہوں نے مرکزی قانون سازی اسمبلی کے اجلاس میں بھگت سنگھ کا دفاع کیا جسے برطانیہ کی نوآبادیاتی حکومت نے سرکاری طور پر دہشت گرد قرار دیا تھا ۔
اس تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو اکیسویں صدی کے پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے ذریعہ شہریوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کو سلب کرنا بالکل ناقابل قبول ہے۔کمیشن نے اپنی رپورٹ کے پہلے صفحے کے پہلے پیرا گراف میں بانی پاکستان کے بارے میں ایک ایسی تاریخی سچائی کا ذکر کیا ہے جسے ریاست پاکستان نے ہمیشہ اپنے شہریوں سے چھپایا ہے۔بھگت سنگھ برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کرنے والا ایک انقلابی تھا جسے قائد اعظم نے ایک آزادی پسند قرار دیا ۔
اسی زمانے میں لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھگت سنگھ کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے ٹربیونل کو غیر قانونی قرار دیا ۔لاہور ہائیکورٹ بار کے اس بیان پر علامہ اقبال نے بھی دستخط کئے جس کے ٹھوس دستاویزی شواہد موجود ہیں لیکن افسوس کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان میں آج بھی سامراجی طاقتوں کی گماشتہ اشرافیہ نے غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعہ عوام کی اکثریت کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔آج پاکستان کی بڑی یونیورسٹیوں میں بلوچ طلبا کونسلی امتیاز اور جبری گمشدگیوں کا سامنا ہے۔ بلوچ طلبا کی جبری گمشدگیوں کے خلاف خاتون وکیل ایمان مزاری نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں آئین کی دفعہ 199کےتحت ایک درخواست دائر کی تھی ۔
اس درخواست کی سماعت کے دوران یہ حقیقت سامنے آئی کہ بلوچ طلبا کو صرف قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد نہیں بلکہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں سے غائب کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے ساتھ نسلی امتیاز بھی برتا جاتا ہے۔بلوچستان میں یونیورسٹیوں کی تعداد بہت کم ہے بلوچستان کے طلبا اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے سندھ یا پنجاب کا رخ کرتے ہیں تو ریاستی ادارے ان طلبا کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں لہٰذا اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان کی یکجہتی کیلئے خطرہ بننے والی اس ریاستی پالیسی کے پس منظر اور خاتمے کیلئے ایک کمیشن قائم کیا تاکہ پاکستان کی پارلیمینٹ اور ایگزیکٹو سیکورٹی اداروں کے موقف کی روشنی میں ایسی سفارشات مرتب کرے جن کو سامنے رکھ کر عدالت کوئی حل تجویز کرے ۔
پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو نے اپنا کام کر دیا لیکن عدالت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ہوسکتا ہے عدالت کیلئے دیگر معاملات بہت اہم ہوں لیکن بلوچ طلبا کی جبری گمشدگی سے متعلق کمیشن کی رپورٹ نے جبری گمشدگی کو ایک ایسا زخم قرار دیا ہے جو پاکستان کے وجود کومسلسل کمزور کر رہا ہے اس مسئلے کا تعلق صرف ایک صوبے سے نہیں ہے ۔یہ ایک قومی مسئلہ ہے لیکن بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہے ۔کمیشن کی رپورٹ میں قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم حفیظ بلوچ کی گمشدگی کا پورا پس منظر بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا کہ کس طرح میجر غلام مرتضیٰ خضدار سے آیا اور اس نے یونیورسٹی کے اساتذہ کی مدد سے فزکس ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم حفیظ بلوچ تک رسائی حاصل کی اور کچھ عرصے بعد حفیظ بلوچ اپنے گھر واپس گیا تو غائب ہوگیا ۔
ایک اور طالب علم وسیم تابش بلوچ کافی عرصہ لاپتہ رہا اورپھر ایک جعلی مقابلے میں مار دیا گیا۔اس کمیشن نے وزیر اعلیٰ بلوچستان ، آئی جی بلوچستان اور کوئٹہ میں وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں موجود متاثرین سے بھی ملاقاتیں کیں۔کورکمانڈر کوئٹہ سے ان کی مصروفیات کے باعث ملاقات نہ ہو سکی ۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان بھر میں بلوچ طلبا کے ساتھ ہونے والا سلوک آئین پاکستان کی دفعہ 9-10اور 25کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔رپورٹ کے صفحہ 62پر کہا گیا ہے کہ سیکورٹی اداروں نے بلوچ طلبا کے اغوا میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے لیکن واقعاتی شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچ طلبا کی جبری گمشدگیوں میں ریاستی ادارے ملوث ہیں اور ان کا یہ عمل اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ 55کی خلاف ورزی ہے ۔صفحہ 64پر یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی رہائش گاہ پر ایف سی کے ایک افسر نے قبضہ کر رکھا ہے ۔
2021ء میں بلوچستان یونیورسٹی کے اغوا ہونے والے دو طلبا کا تاحال کوئی پتہ نہیں۔ صفحہ 66پر حکومت پاکستان کی طرف سے 2011ء میں جبری گمشدگیوں کی انکوائری کیلئے قائم کئے گئے کمیشن کی کارکردگی پر شدید مایوسی کا اظہار کیا گیا۔کئی سال سے یہ کمیشن ایک متنازعہ شخصیت جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں کام کر رہا ہے لاپتہ افراد کے اہلخانہ ان صاحب سے شدید نالاں ہیں ۔
کمیشن نے سفارشات میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت جبری گمشدگیوں کو روکنے کے لئے قانون سازی کے علاوہ سیکورٹی اداروں پر نظر رکھنے کیلئے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کرے وفاقی حکومت سے کہا گیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کو روکنے کیلئے عالمی کنونشن پر فوری دستخط کئے جائیں ۔
صفحہ 73پر کہا گیا ہے کہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں جبری گمشدگیوں پر بحث کی جائے کیونکہ یہ آئین کی بالادستی کا مسئلہ ہے، اسپیکر قومی اسمبلی سے کہا گیا ہے کہ وہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس بلا کر جبری گمشدگیوں پر بحث کرائیں اور پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے۔کمیشن کی سفارشات پر عمل کیا جائے تو سیکورٹی اداروں کو صرف بلوچستان نہیں بلکہ پورے پاکستان میں آئین و قانون کے تابع بنایا جا سکتا ہے لیکن فی الحال یہ نہ تو چیف جسٹس آف پاکستان کی ترجیح ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کی ترجیح ہے ۔چیف جسٹس ، وزیر اعظم، وزیر داخلہ، وزیر دفاع، اسپیکر قومی اسمبلی اور عمران خان کا تعلق پنجاب سے ہے وہ پنجاب کی لڑائی میں مصروف ہیں حالانکہ جبری گمشدگی صرف بلوچستان نہیں پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔
Next Post