کسی بھی ریاست کے باشندے ٹیکس اس لئے ادا کرتے ہیں کہ ان کی بنیادی ضروریات ریاست پوری کرے۔ خاص طور پر ان کی جان اور مال کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے ریاست لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصرہے۔ یہاں صحت، تعلیم ،خوراک اور چھت کی ذمہ داری سے ریاست نے بہت پہلے ہاتھ اٹھا لیا تھا اب ریاست نے جان و مال کے تحفظ کے فرض سے بھی کوتاہی برتنا شروع کر دی ہے۔ ملتان میں دو نوجوان لڑکوں کو پولیس نے بھون کر رکھ دیا ، گلگت بلتستان میں 6 بچوں کو سرکاری گاڑی نے کچل دیا، اسلام آباد،راولپنڈی اور لاہور سمیت پاکستان کے کئی شہروں میں چوری، ڈکیتی اور قتل کے کئی واقعات ہوئے۔ لوگوں کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چوری ہوئیں۔ عید پر ان وارداتوں نے کئی گھرانوں کو خوشیوں کی بجائے غم دیا۔ اب ریاست نہ کسی کو گاڑی دے رہی ہے نہ موٹر سائیکل دے رہی ہے، نہ کسی کو اس کی جان کا نعم البدل ملنا ممکن ہے، جب یہ سب کچھ نہیں ہو رہا تو پولیس کے نام پر اتنی تنخواہیں دینے کا کیا فائدہ۔اگر یہ محکمہ لوگوں کے مال و جان کا تحفظ نہیں کر سکتا تو پھر اس محکمے کو ختم کر دیا جائے۔ یہ محکمہ کیوں ریاست پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ ایک ڈیڑھ ماہ پہلے میں نے اسی حوالے سے ایک کالم لکھا تھا جس میں دو واقعات کاخاص طور پر تذکرہ کیا تھا، پہلا واقعہ یہ تھا کہ میرے چھوٹے بھائی عمار برلاس سے راولپنڈی کی ایک مصروف مارکیٹ میں موبائل چھین لیا گیا لاکھوں روپے کی مالیت کا موبائل فون چھن جانے پر میں نے راولپنڈی پولیس کے سربراہ خالد ہمدانی سے تذکرہ بھی کیامگر ابھی تک اس کا نتیجہ صفر ہے ۔دوسرے واقعہ میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ میرے ایک استاد کے بیٹے حسن دانیال کو لاہور میں لوٹ لیا گیا، ان سے موٹر سائیکل،لیپ ٹاپ، موبائل اور نقدی چھین لی گئی۔ اس سلسلے میں لاہور پولیس کے افسران کو آگاہ کیا گیا مگر اس کا نتیجہ بھی صفر نکلا۔اگر دور ِنگرانی میں بھی ایسا ہونا تھا تو پھر ایسی نگرانی کا کیا فائدہ۔ نگران تو ویسے بھی عارضی ہوتے ہیں چلو ہم کراچی کی بات کر لیتے ہیں جہاں مستقل حکومت قائم ہے۔ اس سال مارچ کے مہینے میں کراچی شہر سے 188 گاڑیاں چوری ہوئیں۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق پانچ ہزار ستاون موٹر سائیکل ایک مہینے میں چوری ہوئیں اور اسی مہینے میں 2577 موبائل فون چھینے گئے۔اگر قتل کے معاملات کو دیکھا جائے تو اس سال کے پہلے دو ماہ میں کراچی شہر میں ننانوے افراد مارے گئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ شہر قائد میں جرائم پیشہ افراد نے خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے اور اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ محکمہ پولیس کے متعدد اہلکار خطرناک جرائم میں ملوث پائے گئے۔ کراچی پولیس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس سال کے ابتدائی ساڑھے تین مہینوں میں سترہ پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور اٹھارہ پولیس اہلکاروں کو غیر قانونی کاموں میں ملوث ہونے کی وجہ سے معطل کیا گیا۔ ان پولیس اہلکاروں پر اغوا برائے تاوان، اختیارات کا غلط استعمال، علاقے میں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی سمیت دیگر سنگین الزامات ہیں۔حالیہ دنوں میں شارٹ ٹرم کڈنیپنگ( مختصر مدت کیلئے اغواء برائے تاوان)، جھوٹے مقدمات کے ذریعے شہریوں سے پیسوں کی وصولی کے علاوہ اغوا اور ڈکیتی جیسے واقعات میں بھی پولیس اہلکاروں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا جس کے بعد کئی اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا۔ کچھ دن پہلے قائد آباد کے شہریوں کو سستے داموں کالےبچھو کی فروخت کا جھانسہ دے کر پولیس اہلکاروں نے نارتھ ناظم آباد میں شہریوں کو اغوا کر کے قید رکھا۔ اور ایک شہری کے اہلخانہ سے پانچ لاکھ کا مطالبہ کیا،اس مطالبے کے بعد اے وی سی سی نے کارروائی کرتے ہوئے شہریوں کو پولیس تھانے سے بازیاب کروایا اور اس مرحلے پر دو برطرف اہلکاروں سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح نادرن بائی پاس کے قریب ایک مال بردار گاڑی چھیننے کے الزام میں دو پولیس اہلکاروں سمیت پانچ افراد گرفتار کئے گئے جن کے قبضے سے گاڑی سمیت دیگر سامان برآمد ہوا۔اس صورتحال پر کراچی یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر نعیمہ شہریار کہتی ہیں کہ پولیس اہلکاروں کی جرائم میں ملوث ہونے کی روش اس محکمہ کو عوام سے مزید دور کر رہی ہے۔ کراچی کے علاوہ سندھ کے باقی شہروں کی بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں اگرچہ حالات قدرے بہتر ہیں مگر وہاں بھی سی ٹی ڈی اہلکاروں پر اغوا برائے تاوان میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔لاہور میں ایک جیولری شاپ سے پانچ کروڑ کی چوری ہو جاتی ہے،احمد پور شرقیہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے لوگ زخمی ہو جاتے ہیں، اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں خواتین اور بچوں پر 9 افراد تشدد کرتے ہیں۔
اگر معاشرے میں لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کا یہی عالم ہے تو پھر دو چار سوال ریاست کے سامنے ضرور کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ہم اپنی جان و مال کے تحفظ کیلئے ٹیکس ادا کرتے ہیں تو پھر ہمیں یہ تحفظ کیوں نہیں دیا جاتا اگر کسی کی گاڑی، موٹر سائیکل یا موبائل فون چھن جائے تو پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ بڑی سفارشوں کے بعد ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اور پھر ایف آئی آر درج کروانے والا ساری زندگی کاغذ کے اس ٹکڑے کو دیکھتا رہتا ہے کیونکہ نتیجہ صفر ہی رہتا ہے۔ ایک بہت سمجھدار پولیس افسر شیخ عمر مرحوم کہا کرتے تھے کہ’’ پولیس میں پولیسنگ کی اشد ضرورت ہے‘‘ اسی لئے شیخ عمر مرحوم نہ صرف پولیس اہلکاروں بلکہ پولیس افسران کو بھی ہتھکڑیاں لگوا دیا کرتے تھے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہر گلی میں جرائم پیشہ افراد کے ڈیرے ہوں ، ہر چوک پر ڈاکوؤں کا کوئی ہجوم ہو، ہر بازار میں لٹیرے گھومتے ہوں اور ہر ناکے پر ان لٹیروں کے ساتھی کھڑے ہوں۔ناصر بشیر کا شعر یاد آگیا
ناصر بشیر کس کی نظر گھر کو کھا گئی
سایہ سا بچھ گیا ہے مرے آنگن میں خوف کا
بشکریہ جنگ