نذر حافی
قیامت ضروری ہے۔ یہ ضروریاتِ دین میں سے بھی ہے۔ ضروریاتِ دین میں سے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان قیامت کے ہونے پر ایمان رکھے۔ انسان اگر مسلمان نہ بھی ہو تو اُسے ایک قیامت چاہیئے۔ ایک ایسا دِن کہ جس دِن ستارے بکھر جائیں، زمین پاش پاش ہو جائے، سورج اور چاند گہنا جائیں اور سارے ظالموں کو مظلوموں کے سامنے صف بستہ کھڑا کیا جائے۔ اُس دِن لوگوں کے اعمال کے مطابق اُنہیں پوری کی پوری سزا یا جزا ملے۔ یہ ہے وہ دِن جو ہر مظلوم کی تمنّا، ہر مومن کی آرزو، ہر نیک و کار کی دُعا اور ہر ظالم کا انجام ہے۔ اِس دِن کا انتظار ہماری طرح گذشتہ اقوام نے بھی کیا۔ تاہم مجھے اِس دن کو سمجھنے کیلئے کچھ آزادی چاہیئے۔ وہی آزادی جو اللہ کی آخری کتاب اور آخری پیغمبرؐ نے ہمیں دے رکھی ہے۔ وہ آزادی غوروفکر کرنے، سوال پوچھنے، آواز اٹھانے اور تحقیق کرنے کی آزادی ہے۔ ہمیں آزادی سے یہ سوچنے کا حق دیا جانا چاہیئے کہ اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید نے اور اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہﷺ نے ہمارے لئے ہدایت کا کیا بندوبست کیا ہے۔؟
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید قیامت تک کیلئے اللہ کی آخری کتاب ہے اور حضرت محمد رسول اللہﷺ قیامت تک کیلئے اللہ کے آخری رسول ہیں تو پھر ہمیں اور ہماری قیامت تک آنے والی نسلوں کو مکالمے کی مکمل آزادی ہونی چاہیئے۔ یہ آزادانہ بات چیت اُس وقت تک نہیں ہوسکتی، جب تک ہمیں آزادانہ طور پر یہ نہ سوچنے دیا جائے کہ قرآن مجید اور نبی اکرمؐ کی نصوص کی روشنی میں نبی اکرم کے بعد نبیؐ کا جانشین اور خلیفہ کون ہے اور قیامت تک نبی کے بعد ہمیں کس کی اطاعت اور بیعت کرنی ہے۔؟ جب دینِ اسلام نے ہمارے لئے بیت الخلاء کے احکام بھی بتائے ہیں تو کیا یہ نہیں بتایا کہ اب قیامت تک کے انسان، خلافتِ رسولؐ سے متصل ہو کر ختمِ نبوّت پر کیسے قائم رہیں گے۔؟ اگر قیامت تک ختمِ نبوّت پر قائم رہنے کا طریقہ قرآن مجید اور رسولِ اسلام نہیں بتائیں گے تو پھر قیامت کے دِن ہم سے سوال کس چیز کا ہوگا۔؟ لہذا یہ تو پیغمبرؐ ِ اسلام کو ہی بتانا ہے کہ اُن کے بعد قیامت تک اُن کے جانشین کون لوگ ہونگے۔؟
جس طرح قیامت کا دِن ایک اٹل، عقلی، منطقی اور ضروری دِن ہے، اِسی طرح قیامت تک کا لائحہ عمل بھی اٹل، عقلی، منطقی اور ضروری ہے۔ نجاتِ بشر کیلئے فقط یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ قرآن مجید اب قیامت تک اللہ کی آخری کتاب ہے اور حضرت محمدﷺ قیامت تک اللہ کے آخری رسول ہیں۔ درحقیقت حضرت انسان نے قیامت تک اس کتاب اور اس رسولؐ کے خلفاء اور جانشینوں کے نقشِ قدم پر چل کر زندگی بسر کرنی ہے۔ دیگر واقعات کو چھوڑیں، صرف اسی واقعیت کو ہی لے لیجئے کہ اِس آخری کتاب اور آخری رسول ؐ کے آنے کے بعد بھی لوگ زمانہ جاہلیت کی مانند زندگی بسر کر رہے ہیں! اسی کتابِ ہدایت کی جھوٹی قسمیں کھا کر اور اِس کو لوگوں کے سروں اور نیزوں پر بلند کرکے اُنہیں دھوکہ دیا جاتا ہے۔ اِسی رسول ؐ کے امتیوں کو ایک طرف تو بدعتی کہہ کر قتل کیا جاتا ہے اور دوسری طرف وہی بدعتی بدعتی کے نعرے لگانے والے ہی ایک نئے درود شریف کی بدعت ایجاد کرتے ہیں۔ “صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم۔” یہ درود نہ نبی اکرم ؐ نے پڑھا، نہ ہی صحابہ کرام نے پڑھا اور نہ ہی کبھی کسی صحابی نے یہ دعوی ٰ کیا کہ میں آلِ رسولﷺ کے مساوی اور برابر ہوں۔
سب جانتے ہیں کہ اگر نماز میں پڑھے جانے والے درودِ ابراہیمی میں اصحابہِ کا اضافہ کیا جائے تو نماز ہی باطل ہو جائے گی، لیکن اس کے باوجود عہدِ جاہلیت کی طرح کتابِ خدا اور سنّتِ رسول ؐ کی ضد میں بدعات گھڑی جا رہی ہیں اور زبردستی لوگوں سے اُن پر عمل کروایا جا رہا ہے، حالانکہ ضروری تو یہ ہے کہ جو لوگ دینِ اسلام کو قیامت تک کیلئے اللہ کا آخری دین سمجھتے ہیں، اُنہیں قیامت تک اللہ کی آخری کتاب اور آخری رسولؐ سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھنا چاہیئے۔ آگے بڑھنے والے تو اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ ایک طرف تو نیا درود شریف ایجاد کرتے ہیں اور دوسری طرف اللہ کے آخری نبی ؐ کے والدین کو نعوذ باللہ کافر اور مشرک کہتے ہیں۔ جب اللہ کے آخری نبی ؐ کے بعد خلافت کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہوگا تو پھر اسی طرح بدعتی افراد قیامت تک بدعات ایجاد کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے رہیں گے۔ اس کا اختیار قیامت تک کے ہر انسان کو دیا گیا ہے کہ وہ چاہے تو اللہ اور اُس کے رسولوں اور اُن کے حقیقی خلفاء کے نقشِ قدم پر چلے اور چاہے تو آیاتِ خدا کو بیچ کھانے والوں اور بدعتیں ایجاد کرنے والوں کی پیروی کرے۔ ایسے لوگ گذشتہ اقوام میں بھی موجود تھے اور تا قیامت رہیں گے۔
اس کائنات میں گذشتہ اقوام کے ساتھ ساتھ تاریخِ اسلام بھی رقم ہوئی ہے۔ تاریخِ اسلام میں پیغمبرِ اسلام ؐکے خاندان کے اجتماعی قتل کا واقعہ بھی موجود ہے۔ یہ واقعہ بھی ایک قیامت خیز واقعہ ہے۔ یہ واقعہ بھی اس امر کی تاکید کرتا ہے کہ قیامت ضروری ہے۔ میرے نزدیک یہ واقعہ چونکہ پیغمبرِ اسلام کے خاندان کے بے دریغ قتل پر مبنی ہے، لہذا دوسرے ہر واقعے سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ اگر میں ایک سچا اور پکا مسلمان ہوں تو پھر تو مجھے آزادانہ طور پر یہ تحقیق کرنی چاہیئے کہ آخری نبی کی آل اور خاندان کو اُسی نبی کی اُمّت نے کیوں قتل کر دیا۔؟ انسان اگر مسلمان نہ بھی ہو تو ایک باشعور انسان کیلئے یہ سوال بہت اہم ہے۔ قیامت تک کی نسلِ اِنساں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ اگر امام حسینؑ آخری نبی ؐ کے وارث ہیں تو ان کی شہادت کا راستہ کیسے ہموار ہوا۔؟ پھر اگلا سوال تو یہی بنتا ہے کہ کیا یزید ایک شب میں آسمان سے نازل ہوا تھا؟ پھر وہ کیسے اسلام کے تخت پر براجمان ہوگیا ہوا۔؟
اس طرح کی قیاس آرائیوں سے کوئی بھی عقلمند آدمی مطمئن نہیں ہو، تاکہ امام حسین ؑ بہت نیک انسان تھے اور یزید بہت بُرا اور فاسق تھا، سو امام ؑ نے اُس کی بیعت نہیں کی۔ گویا اگر یزید فاسق و فاجر نہ ہوتا اور بہت بڑا متقی و پرہیزگار ہوتا تو پھر امام حسینؑ اُس کی بیعت کر لیتے۔ آہ! تحقیق اور سوچ سے عاری یہ اُمّت ابھی تک یہ سمجھنے اور سمجھانے سے قاصر ہے کہ یزید کی بیعت سے امام حسینؑ نے انکار کیوں کیا!؟ حقائق کو پوری طرح سمجھنا ہر باشعور کا فطری حق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یزید جا کر اللہ کے آخری رسول ؐ کے مقام اور منصب پر بیٹھ گیا تھا۔ یہ اسلامی خلافت حضرت آدمؑ سے لے کر پیغمبرِ اسلامؐ تک سب انبیاء کی مشترکہ جدوجہد کا ثمر تھی۔ یعنی یہ تختِ اسلام سارے انبیا کا تخت ہے۔ مثال کے طور پر اگر اس تخت پر فرعون بیٹھ جائے اور وہ بہت نیک اور دیندار ہو تو کیا نعوذ باللہ حضرت موسیٰ اُس کی بیعت کر لیں گے۔؟ کیا اگر ابوسفیان بہت نیک اور متقی ہوتا تو نعوذ باللہ پیغمبرِ اسلام ؐ اُس کی بیعت کر لیتے۔؟
بات یہ ہے کہ یزید اُس منصب پر بیٹھ گیا تھا کہ جو پیغمبرِ اسلام کا منصب تھا۔ لہذا اگر امام حسینؑ اُس کی بیعت کر لیتے تو پیغمبرِ اسلام کے وارث ہونے کی وجہ سے یہ بیعت نعوذ باللہ سارے انبیاء اور پیغمبرِ اسلام کی طرف سے یزید کی بیعت قرار پاتی۔ یہاں پر لفظِ بیعت کی بھی وضاحت ضروری ہے۔ بہت سارے لوگ بیعت کا مطلب منتخب کرنے کے لیتے ہیں، جو کہ سراسر غلط ہے۔ بیعت میں اور منتخب کرنے میں فرق ہے۔ بیعت اور چیز ہے اور انتخاب کرنا چیزِ دیگر۔ ایک تحقیقی مسلمان ہونے کے ناتے میرے لئے لفظِ بیعت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ بیعت کا مطلب کسی کو ووٹ دے کر منتخب کرنا نہیں ہے، بلکہ کسی کو تسلیم کرنا ہے۔ لوگ نبی ؐ اکرم کی جب بیعت کرتے تھے تو آپ کو منتخب نہیں کرتے تھے، بلکہ آپ کو تسلیم اور قبول کرتے تھے۔ یہی صورتحال سقیفہ بنی سعدہ میں پیش آئی تھی۔ وہاں جمع ہونے والے لوگوں کی کُل تعداد بارہ سے تیرہ افراد کے لگ بھگ تھی۔ وہاں کسی قسم کی رائے شماری نہیں ہوئی تھی۔ وہاں صرف بیعت لی گئی تھی۔
رائے شماری کے بغیر بیعت
سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کیلئے ووٹنگ یا رائے شماری نہیں ہوئی بلکہ بحث و جدال کے عالم میں خلیفہ دوّم نے آگے بڑھ کر خلیفہ اوّل کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جس کے بعد وہاں بھی اور وہاں سے باہر جا کر بھی لوگوں سے بیعت لی گئی۔ صحابی رسولؐ حضرت سعد بن عبادہ شہید، حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت عمار یاسر شہید اور حضرت علی کرم اللہ وجہ سمیت متعدد جیّد صحابہ کرام ؓ سقیفہ بنی سعدہ میں قائم شدہ خلافت پر معترض تھے۔ خود خلیفہ اوّل نے اپنے بعد والے خلیفہ کے انتخاب کیلئے سقیفہ والا انداز اپنانے کے بجائے نیا طریقہ اختیار کیا۔ اسی طرح دوسرے خلیفہ نے اپنے بعد تیسرے خلیفہ کے انتخاب کیلئے بھی ایک جداگانہ راستہ اپنایا۔ اگر ان میں سے ایک طریقہ بھی قرآن و سنّت کے مطابق ہوتا تو پھر اُسے ترک نہ کیا جاتا۔ پس میرا سوال اپنی جگہ مزید مضبوط ہوگیا ہے کہ پھر قرآن و سنّت کے مطابق رسولِ اسلام ؐ کے بعد معیّن شُدہ خلیفہ کون ہے۔؟ کیا ایسا پیغمبر جو قیامت تک کیلئے آخری دین لے کر آیا ہے، وہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ معیّن کئے بغیر چلا گیا ہے۔؟ پس اگر ختمِ نبوّت کے بعد قیامت تک کیلئے خلافت و ہدایت کا کوئی نظام موجود نہیں تو پھر قیامت کس بات کی۔؟
قیامت کے دِن یہی تو پوچھا جائے گا کہ زندگی کس کی اطاعت میں گزاری ہے۔؟ اگر ختمِ نبوّت کے بعد قرآن و سنّت نے اطاعت کرنے کیلئے خلیفہ ہی نہیں معیّن کیا تو پھر حساب کتاب کس بات کا ہوگا۔؟ عقلِ سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ تکمیلِ دین، ختم نبوّت اور کتابِ خدا کے مکمل ہونے کے بعد انسان کی نجات کیلئے سب سے پہلے قیامت تک کیلئے نظامِ خلافت کو معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کا خلیفہ صریحاً کتاب و سنّت کے مطابق ہونا چاہیئے اور اُسے منتخب کرنے میں کسی قسم کے جغرافیائی و لسانی نیز نسلی اور قبائلی تعصب کا عمل دخل بھی نہیں ہونا چاہیئے۔ حضور نبی ؐ اکرم کے لئے قریشی و حبشی و عربی و عجمی و مکی و مدنی و مہاجرین و انصار سب ایک جیسے تھے۔ سب کیلئے میزان تقویٰ تھا۔ سب کو بیت المال سے بھی ایک جیسا حصّہ ملتا تھا۔ آپ لوگوں کا تذکیہ نفس کرنے اور انہیں تعلیم دینے میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے تھے۔ آپ نے مدینے میں مواخاتِ مدینہ قائم کرکے عملی طور پر ان تعصبات کی بیخ کنی کر دی تھی۔
مہاجرین و انصار کو بھائی بھائی بنانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ اب کوئی تقسیم اور تفریق نہیں، اب جو ایک بھائی کے حقوق و فرائض ہیں، وہی دوسرے کے بھی ہیں۔ جو ایک کا مقام و منزلت ہے، وہی دوسرے کا بھی ہے۔ سب کو بیت المال سے بھی ایک جیسا حصّہ ملتا تھا۔ پیغمبرِ اسلام کی اس عدالت و مساوات کا سب سے بڑا دھچکا قریش کو لگا۔ قریش میں یہ غرور تھا کہ وہ نسلِ اسماعیل میں سے ہونے، سابقہ کتابوں کے وارث ہونے اور کعبے کے متولّی ہونے کی وجہ سے مکّے کی اشرافیہ ہیں۔ پیغمبر اسلام کی عادلانہ تعلیمات نے قریشیوں کے اس تعصب کو چکنا چور کر دیا۔ آپؐ کی بارگاہ میں حبش کے بلالؓ، یمن کے مقدادؓ، قریش کے عباس ؓ، فارس کے سلمانؓ اور مدینے کے ایوب انصاریؓ کے درمیان کوئی فرق اور امتیاز نہیں تھا۔ سب کیلئے ایک ہی پیالہ اور ایک ہی نوالہ تھا۔ نہ کوئی عربی تھا اور نہ عجمی، نہ قریشی تھا اور نہ حبشی، نہ کوئی مکّی تھا اور نہ مدنی، نہ کوئی مہاجر تھا اور نہ انصار۔۔۔ سب ایک جیسے اور بھائی بھائی تھے۔
مکّے کے قریشیوں نے ایسی انسانی مساوات کا پیغام سُنا تو انہوں نے مل کر نبی ؐ اکرم پر مکّے کی زمین تنگ کر دی۔ یہانتک کہ آپ رات کی تاریکی میں مکّے سے چھپ کر نکلے۔ پھر مدینے میں بھی ان قریشیوں نے نبی ؐ پاکؐ کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ دوسری طرف مدینے میں بسنے والے یہودی بھی نسلی طور پر انتہائی متعصب تھے۔ وہ بھی اپنے آپ کو حضرت موسیٰ کا وارث، اہلِ کتاب اور ایک برجستہ و پڑھی لکھی نسل سمجھتے تھے۔ چنانچہ نبی ؐ اکرم کی تمام تر رحمت و مہربانی کے باوجود مدینے کے یہودی مکّے کے قریشیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے میں مگن رہے۔ غزوہ بدر سے لے کر فتحِ مکہ تک ہر جنگ میں کفّار کے علمدار و سرخیل یہی قریشی رہے اور انہیں مدینے کے متعصب یہودیوں کا تعاون حاصل رہا۔ اسلام ان دونوں (مکّے کے قریشیوں اور مدینے کے یہودیوں) کا مشترکہ دشمن تھا، چونکہ اسلام انسانی برتری کا معیار نسلی تعصب کے بجائے تقویٰ کو قرار دیتا تھا۔
فتحِ مکہ کے روز جب مکہ فتح ہوگیا تو قریشیوں کا مورچہ ہی ختم ہوگیا۔ یہ اپنا مورچہ ختم ہونے کے بعد اسلام کے مورچے میں آنے پر مجبور ہوئے، چونکہ اب ان کے پاس کوئی دوسرا مورچہ باقی نہیں رہا تھا۔ انہوں نے نبی ؐ کی بعثت سے فتح ِمکہ تک اسلام کے خلاف تلوار کھینچے رکھی، لیکن نبی ؐ نے فتح مکہ کے روز بھی اِن پر تلوار نہیں کھینچی اور ان سے کسی قسم کا انتقام نہیں لیا۔ آپ نے فتح کے روز کسی قسم کا جشن بھی نہیں منایا اور کوئی ایسی مجلس بھی نہیں سجائی کہ لوگ آکر واہ واہ کریں۔ آپ نے اپنے عمل کے ساتھ قریشِ مکہ کو یہ بات سمجھا دی کہ قریشیوں کے نزدیک فضیلت و برتری کا معیار اور جنگ و فتح کا انداز نبی ؐ پاک کی سیرت سے قطعاً مختلف ہے۔ آپ نے ایک قطرہ خون بہائے بغیر، متکبر و مشرک قریشیوں کی ناک کو خاک پر رگڑا۔ تاہم مع الاسف سقیفہ بنی ساعدہ میں اسی قریشی اور مہاجر ہونے کو ہی اسلامی خلافت کا معیار قرار دیا گیا۔ چنانچہ یہاں پر سوچنے، سمجھنے اور لکھنے پڑھنے والوں کی طرف سے یہ اعتراض اور سوال تو بنتا ہے۔
اب یہی تو مقامِ اعتراض اور تعجب ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا معیار قرآن کی تعلیمات اور نبی ؐ پاک کی احادیث کے بجائے قریشی ہونا اور مہاجر ہونا بیان کیا گیا۔ حالانکہ پیغمبرِ اسلام ؐانہی نسلی و مہاجر و مقامی نیز دیگر سارے تعصبات کو مٹانے کیلئے تو مبعوث ہوئے تھے۔ خلیفہ اوّل کے حق میں ایک دلیل یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ خلیفہ اوّل اپنی عُمر کے اعتبار سے دیگر صحابہ کرام خصوصاً حضرت علی ؑسے بڑے تھے۔ یاد رہے کہ جب پہلی خلافت قائم کی گئی تو اُس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی۔ اس دلیل کے بارے میں بھی تھوڑا سا سوچ لیجئے کہ اگر آپ کے پاس ایک تیس سالہ مستند پروفیسر موجود ہو، لیکن آپ اُسے اِس وجہ سے اُس کے منصب سے ہٹا دیں کہ کوئی اور عمر میں اُس سے بڑا موجود ہے تو یہ خود ایک پڑھے لکھے انسان کی توہین ہے۔ پڑھے لکھے انسان کا فائدہ ہی یہ ہے کہ کوئی چاہے اُس سے بڑا ہو یا چھوٹا، وہ اُس کی اطاعت کرے۔
اگر آپ ایک بہت بڑے مستند اور جید عالم کو اُس کی عمر کم ہونے کی وجہ سے کسی بڑے بزرگ کی اطاعت کرنے پر مجبور کریں گے تو یہ خلافِ عقل ہے۔ یا تو آپ یہ کہیں کہ نبی اکرم ؐ نے حضرت علیؑ کو جتنے بھی کمالات اور اعزازات سے نوازا ہے، مثلاً آپ کو بابُ العِلم، میزانِ حق، کُلّ ایمان، حیدرِ کرار اور مولا وغیرہ وغیرہ کے خطابات عطا کئے ہیں۔ وہ سب اعزازات خاندانی تعلق، داماد ہونے نیز پرانی رشتے داری کی وجہ سے تھے اور یا پھر یہ تسلیم کریں کہ نبی اکرمؐ سب کے نبی ؐتھے اور انہوں نے کسی قسم کے مبالغے کے بغیر جیسا حضرت علیؑ کو پایا، ویسا ہی لوگوں کو بتایا۔ اب اتنی عظیم شخصیت کو تیس سال کی عمر میں چھوٹا بچہ کہہ کر منصبِ علم و ہدایت سے ہٹا دیا گیا۔ ایسا کرنے سے جہانِ اسلام کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے، چونکہ یہی تو تیس سال کی عمر (عینِ شباب) کام کرنے کی حقیقی عمر ہوتی ہے۔
سوچئے!
1
1۔ سقیفے میں خلافت کا معیار قریشی نسل اور مہاجر ہونے کو قرار دیا گیا، حالانکہ اسلام نسل پرستی اور علاقہ پرستی کی نفی کرتا ہے۔
2۔ سقیفے میں رائے شماری کے بغیر بیعت لی گئی۔
3۔ خلیفہ اوّل نے بھی دوسرے خلیفہ کے انتخاب کیلئے سقیفے کی روش پر عمل نہیں کیا اور اُسے مسترد کر دیا۔
4۔ خلیفہ دوّم نے جہاں سقیفہ بنی ساعدہ والے طریقہ کار کو مسترد کیا، وہیں خلیفہ اوّل کے طریقہ کار پر بھی خطِ بطلان کھینچا۔ آپ نے نہ ہی تو سقیفہ والوں کا طریقہ کار اختیار کیا اور نہ ہی خلیفہ اوّل کا۔ آپ نے ایک نیا طریقہ کار اپنایا، جو چھ رُکنی کمیٹی کا تھا۔ خلافتِ اوّل کے بعد خلیفہ دوّم کا انتخاب بھی قرآن و سنت کے مطابق یا مسلمانوں کی رائے کے بجائے خلیفہ اوّل کی ذاتی پسند سے ہوا۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، ہمارا تو یہ کہنا ہے کہ جو کچھ بھی ہو، وہ کم از کم شفاف طریقے سے ہو۔
خلیفہ اوّل نے اپنی زندگی میں ہی سقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ منتخب کرنے کے طریقے کو مسترد کر دیا۔ آپ نے اپنے بعد سقیفہ بنی ساعدہ والے طریقے کو اپنانے کے بجائے اُس پر اپنے عمل سے خطِ تنسیخ کھینچتے ہوئے اپنے بعد والے خلیفہ کو خود منتخب کیا۔ پس خلیفہ دوّم واضح طور پر خلیفہ اوّل کی پسند تھے۔ پھر خلیفہ دوّم نے خلیفہ سوّم کا انتخاب کرتے ہوئے جہاں سقیفہ بنی ساعدہ والے طریقہ کار کو مسترد کیا، وہیں خلیفہ اوّل کے طریقہ کار پر بھی خطِ بطلان کھینچا۔ خلیفہ دوّم نے کمالِ مہارت کے ساتھ نہ ہی تو سقیفہ والوں کا طریقہ کار اختیار کیا اور نہ ہی خلیفہ اوّل کا۔ آپ نے ایک نیا طریقہ کار اپنایا جو چھ رُکنی کمیٹی کا تھا۔ اس طرح خلیفہ سوم کا انتخاب بھی قرآن و سنت یا مسلمانوں کی رائے کے بجائے چھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کے حوالے کیا گیا۔ پھر اُس کمیٹی کے بارے میں بھی یہ حکم دیا گیا کہ جو اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کرے، اُس کی گردن اُڑا دی جائے۔ سیاست میں اختلافِ رائے کی صورت میں گردن اُڑا دینا بھی قطعاً قرآن و سنت کے مطابق درست نہیں ہے۔
پس ختمِ نبوّت کے بعد قیامت تک کا سفر آنکھیں بند کرکے نہیں کیا جا سکتا۔ خصوصاً جس سفر کے بعد ایک ابدی جنت اور ابدی جہنم موجود ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کی جانشینی اور اُمّت کی قیادت و رہنمائی صرف اقتدار تک محدود نہیں۔ اقتدار اور حکومت تو رسول کی جانشینی کا ایک شعبہ ہے، جبکہ لوگوں کی ہدایت و تعلیم و تربیت اور تذکیہ نفس بھی رسول کے جانشین کی ہی ذمہ داریاں ہیں۔ رسولِ اسلام ؐکے بعد رسولؐ کے اقتدار اور حکومت کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا اور جس کے پاس اقتدار آگیا، اُسی کو ہی رسول کا جانشین اور خلیفہ کہہ دیا گیا۔ اب یہ سلسلہ اگر روکا نہ جاتا تو قیامت تک یونہی ہوتا رہتا کہ جو صاحبِ اقتدار ہے، وہی مسلمانوں کا خلیفہ ہے۔ قیامت سے پہلے اِس قیامت خیز غلط فہمی کو روکنا ضروری تھا۔
اسلامی معاشرے میں مسئلہ خلافت پر واقعہ کربلا سے پہلے کے اعتراضات اور تناو کو سامنے رکھتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امام حسین ؑبھی اپنے باپ اور بھائی کی مانند کوئی داخلی جنگ کھڑی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آپ وارثِ پیغمبر تھے، آپ نے اُمّتِ پیغمبر کو قیامت تک کیلئے متحد کرکے بارگاہِ خدا میں لے جانا تھا۔ چنانچہ حضرت امام حسینؑ سے پہلے اُن کے نانا، اُن کے والد اور بھائی نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ تاریخی قرائن اور شواہد سے روشن ہے کہ آلِ رسولﷺ کو داخلی جنگ کے بجائے داخلی بیداری مطلوب تھی۔ ورنہ امام عالی مقام ؑ بھی یزید کے خلاف لشکر اور ہتھیار جمع کرتے۔ آپ نے اپنی پوری تحریک میں کہیں بھی یہ نہیں فرمایا کہ میں یزید کا تختہ الٹنے جا رہا ہوں یا اُسے قتل کرنے یا اُس سے حکومت چھیننے کیلئے نکلا ہوں۔ اگر آپ ایسا کرتے تو آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس میں کامیابی نہیں ہوگی۔ ایک مدبّر قائد، رہبر اور رسولؐ کا بابصیرت وارث اور جانشین ہونے کے ناطے آپ بخوبی جانتے تھے کہ سرکاری خزانہ، فوج اور لوگوں کی اکثریت یزید کے ساتھ ہے۔ بفرضِ محال اگر آپ یزید سے وقتی طور پر حکومت لے بھی لیتے تو پھر بھی ایسی حکومت زیادہ دیر تک نہ چل پاتی۔
امام عالی مقامؑ کی نگاہیں یزید کے تخت اور حکومت کے بجائے اُس تخت تک پہنچنے والے غلط راستوں پر مرکوز تھیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یزید کو غلط اور بُرا کہہ کر حصولِ اقتدار کے اُن غلط اور بُرے راستوں کو چھپا دیا جاتا ہے، جِن پر چل کر یزید ملعون، بانی اسلامؐ کی مقدس مسند تک جا پہنچا۔ آپ دیکھ رہے تھے کہ مسلمانوں نے اسلام کو بھی اچھی طرح سے نہیں سمجھا اور زمانہ جاہلیت کے عقائد و خرافات و تعصبات کو بھی پوری طرح سے نہیں چھوڑا۔ چنانچہ آپ کو مسلمانوں کی بیداری کیلئے ایک ایسی قربانی دینی تھی، تاکہ قیامت تک ایمان لانے کے بعد مسلمانوں کو غُلام بنانے کے سارے راستے بند کر دیئے جائیں۔ آپ کا ہدف لوگوں کو زمانہ جاہلیت کی مروّجہ غلامی، رسومات، خرافات، نسل پرستی اور قوم پرستی سے نجات دلا کر اُنہیں آزاد کرنا تھا۔ آپ کا ہدف صرف یزید کی حکومت کو گرانے تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ کا مقصد ہر اُس راستے کو ہمیشہ کیلئے بند کرنا تھا، جس پر چل کر کوئی بھی شخص یزید بن سکتا تھا۔ آپ ایک یزید کو مارنے کے بجائے اُس کی افزائشِ نسل کو روکنا چاتے تھے۔
اُس وقت لوگوں کی ساری توجہ نمازوں، روزوں، حفظ قرآن، ادائیگی زکواۃ و حج پر تھی اور وہ غلامی کی کراہت کو محسوس ہی نہیں کرتے تھے۔ اُن دنوں مدینہ اذانوں اور تلاوتِ قرآن سے گونج رہا تھا، آپ مدینے سے نکل آئے اور مکّے چلے گئے۔ مکّے میں لوگ حج کرنے میں مصروف تھے، لیکن آپ نے باندھے ہوئے احرام کھول دیئے اور حج کو عمرے سے تبدیل کرکے مکّے سے بھی باہر نکل آئے۔ لوگ یہ محسوس نہیں کر رہے تھے کہ اُنہیں غُلام بنایا جا چکا ہے۔! امام عالی مقامؑ چاہتے تھے کہ لوگ ہوش میں آئیں، اپنے جھکے ہُوئے سر اٹھائیں اور قیامت تک دینِ اسلام کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کریں۔ اُس وقت کے حالات آج کل جیسے ہی تھے۔ جیسے آج کل ہمارے ہاں جو نمازی و پرہیزگار اپنا مسئلہ لے کر تھانے جاتا ہے، جو آدمی بجلی کا ٹرانسفارمر یا بجلی کا میٹر لگوانا چاہتا ہے، جو شخص عدالت میں انصاف کیلئے چکر کاٹتا ہے، اُسے انصاف نہیں ملتا اور اُسے قدم قدم پر رشوت دینی ہی پڑتی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ وہ ایک آزاد مُلک میں پیدا ہو کر بھی کیوں غُلام ابنِ غلام ہے۔
سب لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور ساتھ رشوت بھی لیتے اور دیتے ہیں۔ آج کے دور میں بھی ان رشوت دینے والوں میں اتنی جرات نہیں کہ وہ مل کر رشوت خوروں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ بس رشوت دے رہے ہیں اور اس پر ہر کوئی خوش ہے کہ کم از کم میرا کام تو ہوگیا۔ دینِ اسلام تو لوگوں کو آزاد کرانے آیا تھا، نبی اکرمؐ کی اطاعت اور فرمانبرداری تو اُن کے رسولؐ ہونے کی وجہ سے تھی، اُن کے بعد مسلمان دوبارہ اپنے جیسے لوگوں کے ہی غُلام بن گئے اور اِس غلامی کے درد کو آج بھی محسوس بھی نہیں کرتے۔ اب اگر ایسے میں قیامت آجائے تو اِن نسل در نسل غُلاموں نے رسول ؐ کے بعد رسول کے معیّن شدہ خلیفے کی اطاعت ہی نہیں کی اور بغیر اطاعت کے ہی اِس دنیا سے چلے گئے تو پھر قیامت تک کی نسلوں کو دین کے مکمل ہونے اور ختمِ نبوّت سے تو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اس لئے کہ فائدہ تو اُسے پہنچے گا، جس نے نبی ؐ کے بعد بھی نبیؐ کی اطاعت کی ہوگی۔ فائدے اور ثواب کا تعلق تو اطاعت اور عمل سے ہے۔
چنانچہ امام عالی مقام کا مقصد قیامت تک کے انسانوں کی ایسی تربیت کرنا تھا کہ جب بھی لوگوں کو نبی اکرم ؐ کے حقیقی خلفاء کی اطاعت سے ہٹا کر اُنہیں کسی حاکم، حکومت یا سلطنت و تخت کا غلام بنایا جائے تو وہ غُلام بننے سے انکار کر دیں۔ آپ جانتے تھے کہ اس کیلئے عوام کی عملی و شعوری تربیت کرنے کی ضرورت ہے اور ایسی تربیت جو نسل در نسل قیامت تک منتقل ہوتی رہے۔ چنانچہ آپ نے قرآن و سنّت کے مطابق مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اُتر کر لوگوں کو زبردستی کی بیعت اور غُلامی سے انکار کرنے کا طریقہ بتا اور سکھا دیا۔ آپ کی شہادت کا مقصد لوگوں کو غُلامی کے نشے سے بیدار کرنا تھا۔ لوگوں کو یہ سمجھانا تھا کہ ذکر و فکر اور نماز و روزے میں مست ہونے کے بجائے قیامت تک آزادی، حریّت اور سربلندی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ آپ نے لوگوں کو یہ سمجھا دیا کہ بیعت سے پہلے خلیفہ کو منتخب کرنے کا راستہ قرآن و سنّت کے مطابق ہونا چاہیئے، ورنہ قیامت تک ہر طاقتور اور صاحبِ حکومت یزید کی طرح مسلمانوں سے بیعت لیتا رہے گا۔
آپ نے ہمیشہ کیلئے یہ سمجھا دیا کہ پیغمبر کی جانشینی اور خلافت کا معیار پیغمبر کی رشتے داری اور قبیلہ نہیں ہے بلکہ قرآن اور سنّت کی نصوص ہیں۔ رسولِ خداﷺ کے وصال کے بعد اُمّت کو دوبارہ پیغمبرِ اسلامﷺ کے راستے پر لانے کیلئے حضرت امام حسینؑ کیلئے یہ قیام ناگزیر تھا۔ یعنی قیامت سے پہلے یہ قیامت ضروری تھی۔ آپ نے تختِ اسلام کی طرف جانے والے قرآن و سنّت کے علاوہ وہ سارے راستے بند کر دیئے، جن پر چل کر کوئی بھی شخص یزید بن سکتا تھا۔ اگرچہ آپ کو اس کی بہت بڑی اور بھاری قیمت چکانی پڑی، تاہم آپ نے قرآن و سنّت سے ہٹ کر تختِ اسلام تک پہنچنے والے دیگر ہر راستے کو اپنے خون کے ساتھ ہمیشہ کیلئے مسدود کر دیا، یوں حسین ابن علی ؑ تو شہید ہوگئے، لیکن ہم ہمیشہ کیلئے آزاد ہوگئے۔ اب قیامت تک دنیا کا ہر آزاد منش اور حریّت پسند انسان حسین ابن علی کا شکر گزار ہے، چونکہ اگر حسین نہ شہید ہوتے تو آج گھر گھر یزید ہوتے۔ قیامِ کربلا، قیامت سے پہلے ایک قیامت ہے۔ قیامت سے پہلے یہ قیامت ضروری تھی، تاکہ قیامت تک کی ہماری نسلیں آزادی اور حریّت کے ساتھ جی سکیں۔