قرآن مجید کی رو سے امام حسین (ع) کا مقام و مرتبہ
آیۃ اللہ العظمیٰ مظاہری کے درسِ اخلاق سے اقتباس
قرآن مجید کی رو سے امام حسین (ع) کا مقام و مرتبہ
ترجمہ و ترتیب: ضامن علی
مقدمہ:
قرآنِ کریم نے امام حسین علیہ السلام کو مقامِ عنداللهی کا مصداق قرار دیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے روزِ عاشورا اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیا اور اس قربانی میں آپ علیہ السلام کے مدنظر صرف اور صرف خدا کی رضا تھی۔ خلوص کے مراتب میں سے ایک مقامِ عنداللّهی ہے، یعنی ایک مخلص انسان نیک اور شائستہ عمل مقامِ الٰہی تک پہنچنے کی نیت اور جذبے کے ساتھ کرتا ہے۔ یہ درجہ اخلاص کا اعلیٰ اور ارفع ترین درجہ ہے، جو عام لوگوں کو نہیں دیا جاتا، بلکہ یہ مقام و مرتبہ اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ مختص ہے۔ یہ ایک عرفانی بحث ہے اور اہلِ دل اور سیر و سلوک کے حامل افراد کے درمیان ایک انتہائی اہم بحث ہے۔ یہ بحث انسانی رفتار و کردار میں نیت اور جذبے کے خلوص کے ساتھ تعلق کے بارے میں ہے، یعنی اس بحث میں، نیت اور جذبہ یا مقصد کی بنیاد پر خلوص کے موضوع پر گفتگو کی جاتی ہے۔
خلوص کو دو جہت سے دیکھا جا سکتا ہے، پہلی جہت کا تعلق اس کی نیت سے ہے، جو کہ خدا کے لئے ہونی چاہیئے۔ دوسری جہت عمل کرنے کا مقصد یا انگیزہ ہے، جو نیت کے مطابق ہو، وہ سو فیصد الٰہی نہیں ہوسکتا، یعنی ضروری نہیں ہے کہ نیت اور انگیزہ ایک ہی ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کی نیت ایک چیز ہو اور اس کا محرک (انگیزہ) کچھ اور ہو۔ واضح سی بات ہے کہ انسان کے خلوص کے لئے بہترین صورت وہ صورت ہے، جس میں نیت اور انگیزہ دونوں ہی الٰہی ہوں اور اس میں خدا کے سوا کوئی چیز داخل نہ ہو۔ گفتار و کردار اور عبادات کے حوالے سے ہمارے اہداف کو سات قسموں یا سات مراتب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
مرتبۂ اوّل: عمل کی انجام دہی نیتِ الٰہی اور دنیوی سعادت کے حصول کے مقصد کے ساتھ ہے۔ مثال کے طور پر، عام لوگ عبادت کرتے ہیں اور وہ عبادت اس لئے بجا لاتے ہیں، تاکہ دنیا تک پہنچ سکیں، ان کی آخرت سنور جائے اور ایک آباد دنیا کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ وہ بغیر کسی دکھاوے یا ریاکاری کے خدا کی عبادت کرتے ہیں اور مخلصانہ اور قربۃََ الی اللہ کی نیت سے نماز پڑھتے ہیں، وہ خمس ادا کرتے ہیں، ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں اور ان کی نیت الہیٰ ہے، لیکن ان کا مقصد دنیا میں کامیاب ہونا اور ایک اچھی زندگی حاصل کرنا ہے۔ یہ عبادت صحیح ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اجر و ثواب اور جو چاہیئے، وہ اسے عطا فرمائے گا، لیکن اہل دل کے نزدیک ادنیٰ ترین عبادت وہ عبادت ہے، جس میں عمل کا مقصد یا شوق دنیا ہو۔ انسان کو ایک ایسے مقام پر پہنچنا چاہیئے، جہاں اس کی نظر میں دنیا وما فیہا کی کوئی قدر نہ ہو، تاکہ وہ دنیا میں بلند اور اعلیٰ شوق و ذوق کے ساتھ عبادت انجام دے سکے۔
دنیا کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کا بہت پیارا فرمان ہے۔ ہمارا ایسے فرامین کا جاننا اور پڑھنا ہی اچھا ہے، چاہے ہم اسے حاصل نہ کرسکیں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: «فَإِنَّهَا عِنْدَ ذَوِی الْعُقُولِ کَفَیءِ الظِّلِّ»[۱]؛ دنیا عقلمندوں کے نزدیک سائے کی طرح ہے۔ سائے کی کیا اہمیت ہے؟ زوال پذیر اور ختم ہونے والے سائے کی کیا قدر ہے؟ امام علیہ السلام فرماتے ہیں: اولیاء اللہ علیہم السلام کی نگاہ میں دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے، اس کی سائے کی مانند اہمیت ہے۔ اس لئے اہل معرفت دنیا کے حصول کے لئے عبادت نہیں کرتے، دنیا حاصل کرنے کے لئے نماز نہیں پڑھتے، ان کا صدقہ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو رابطہ ہے، ان کا رات کی تاریکی میں نماز پڑھنا اور ان کے دوسرے نیک اور صالح اعمال دنیا تک پہنچنے کے لئے نہیں ہیں۔
مرتبۂ دوّم: اس مرتبے پر اکثر لوگ فائز ہوسکتے ہیں۔ یہاں آخرت میں کامیابی کے لئے عمل انجام دیتے ہیں۔ وہ جنت اور اس کی نعمتوں تک پہنچنے یا جہنم سے بچنے کے لئے نیک اعمال بجا لاتے ہیں اور عذابِ الہیٰ سے بچنے کے لئے گناہ نہیں کرتے۔ یہ مرتبہ و مقام بھی نیتِ الہیٰ کے ساتھ ہے اور اچھا بھی ہے، لیکن اہلِ دل کی نگاہ سے یہ بہت کم مرتبہ و مقام ہے۔ اہلِ سیر و سوک ایسے اہداف کو انتہائی پست سمجھتے ہیں۔ امیرالمؤمنین سلام الله علیه فرماتے ہیں: «مَا عَبَدْتُکَ خَوْفاً مِنْ نَارِکَ وَ لَا طَمَعاً فِی جَنَّتِکَ لَکِنْ وَجَدْتُکَ أَهْلًا لِلْعِبَادَةِ فَعَبَدْتُک»[۲]؛ “خدایا! میں نے تیری عبادت نہ تیری جہنم کے خوف سے اور نہ ہی تیری جنت کی لالچ میں کی ہے، بلکہ میں نے تجھے عبادت کے لائق پا کر تیری عبادت کی ہے۔” میری عبادت اس لئے ہے کہ تو رب ہے اور میں مربوب ہوں، تو خالق ہے اور میں مخلوق ہوں، تو مولا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں اور غلام کو آقا کے سامنے سر خم تسلیم کرنا چاہیئے اور غلام کا سارا عمل سو فیصد اپنے آقا کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیئے۔
مرتبۂ سوم: عمل کا تجسم ہے، یعنی عمل کا نظر آنا ہے۔ انسان جو بھی عمل انجام دے گا، اسے دنیا اور آخرت میں وہ عمل نظر آئے گا۔ انسان کی دنیا یا آخرت میں جو شناخت اور شخصیت ہے، وہ اس کے اوصاف اور اعمال کے مطابق ہے۔ کچھ لوگوں کی عبادت اور نیک اعمال کا انگیزہ اور نیت دونوں جہانوں میں اچھی شبیہ اور انسانی شناخت ہے، جیسا کہ بُری شبیہ اور حیوانی شناخت سے بچنے کے مقصد کے ساتھ، وہ گناہوں کے ارتکاب اور ناپسند اعمال سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہ درجہ و مرتبہ بھی قابلِ قدر مرتبہ ہے، لیکن اہلِ دل کی نگاہ سے یہ مرتبہ بھی پچھلے دو مراتب کی صف میں شامل ہے اور اسے پست و ادنیٰ سمجھتے ہیں۔
مرتبۂ چہارم: یہ مذکورہ بالا درجات سے بہتر درجہ و مرتبہ ہے، یہ مرتبہ خدا سے حیا کرنے کا مرتبہ ہے۔ اس مرتبے پر فائز ہونے کے بعد انسان نہ صرف گناہ نہیں کرتا، بلکہ واجبات اور فرائض کی ادائیگی میں دلچسپی لیتا ہے، کیونکہ وہ خدا کو حاضر و ناظر جانتا ہے اور خدا کے مقابلے میں جو حیا ہے، جس کی بنا پر برے اعمال کی سوچ بھی نہیں رکھتا اور خدا کے حضور حاضری کے آداب کی پابندی اور رعایت کرتا ہے۔ ہمیں خصوصی طور پر خدا کے حضور مؤدب ہونا چاہیئے۔ حضرت امام خمینی «قدّسسرّه» فرماتے تھے: «عالم محضر خداست، در محضر خدا معصیت نکنید». دنیا خدا کے حضور میں ہے، لہٰذا خدا کے حضور گناہ نہ کریں۔ یہ جملہ بعض اوقات انسان کو خدا سے شرمندہ ہونے کے لئے نیک کام کرنے یا گناہ نہ کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔ خلوص کے اس درجے پر، ایک باحیا اور مؤدب شخص کا دنیا اور آخرت، جنت یا جہنم سے کوئی سروکار نہیں ہے، وہ واقعی ایک عابد اور زاہد ہے اور وہ صحیح معنوں میں نیک اعمال بجا لاتا ہے، کیونکہ وہ ایک باحیا انسان ہے۔ یہ درجہ، مذکورہ بالا تین درجات سے بہتر ہے اور یہ ان لوگوں کے لئے ہے، جو سیر و سلوک کی راہ پر گامزن ہیں اور انسانیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اس دنیا میں انسان بننے، سیر و سلوک کی منزلوں کو طے کرنے اور انسانیت کے مقام تک پہنچنے کے لئے آئے ہیں۔
مرتبۂ پنجم: مقامِ شکر اور وفاداری ہے۔ انسان بعض اوقات نمازِ شب پڑھتا ہے، کیونکہ وہ وفادار ہے، اس لئے کہ وہ خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہتا ہے، وہ اولِ وقت میں نماز ادا کرتا ہے اور دوسروں کی مدد کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے، وہ خدا کی عطا ہے۔ «وَ آتُوهُمْ مِنْ مالِ اللَّهِ الَّذی آتاکُمْ»[٣]. “اور اللہ نے تمہیں جو مال دیا ہے، اس میں سے کچھ انہیں دے دو۔” خدا نے فرمایا ہے کہ میں نے تمہیں جو دولت دی ہے، اسے تم اکیلے نہ کھاؤ اور دوسروں کو بھی دو اور یہ شکر ادا کرنے کے لئے ہے، وہ خود بھی کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی دیتا ہے۔ سلامتی کے شکرانے کے لئے نمازِ شب پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے اور شریعت پر عمل کرتا ہے۔ یہ مقام بھی بہت اچھا مقام اور تقریباً سب سے اعلیٰ مقام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں! آنحضرت نے جواب دیا: «أَ لا أَکُونُ عَبْداً شَکُوراً»[۴]؛ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سی نعمتیں دی ہیں، کیا مجھے ان نعمتوں پر شکر ادا نہیں کرنا چاہیئے۔؟ میری عبادتیں اس لئے ہیں کہ میں ایک شکر گزار انسان بنوں۔
مرتبۂ ششم: یہ محبت و عشق کا مقام ہے۔ جس شخص کے دل میں خدا کی محبت ہے اور اس کا پورا وجود معبود کے عشق سے سرشار ہو، ظاہر ہے کہ اسے سب سے بڑی لذت نماز میں محسوس ہوگی۔ اس لئے کہ جس شخص کو کسی سے بہت زیادہ محبت ہو، اس کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے معشوق سے ملے اور اس سے بات کرے اور اس کا معشوق اس سے بات کرے، یہ ان لوگوں کے لئے سب سے زیادہ لذت بخش ہے، جو ظاہری عشق و محبت کرتے ہیں۔ حقیقی عشق خدا ہے، اگر کوئی شخص حقیقی معنوں میں خدا کا عاشق ہو جائے تو اس کے لئے نماز سب سے بڑی لذت ہے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآله وسلّم فرماتے ہیں:«رَکْعَتَانِ فِی جَوْفِ اللَّیْلِ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا وَ مَا فِیهَا»[۵]. “میرے لئے رات کی تاریکی میں پڑھی جانے والی دو رکعت نماز دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے افضل ہے۔”
جب انسان نماز میں حمد اور سورہ پڑھتا ہے تو خدا اس سے بات کرتا ہے اور جب وہ نماز کے باقی اذکار پڑھتا ہے تو وہ خدا سے بات کرتا ہے۔ یہ عاشق و معشوق کے مابین ایک گفتگو ہے اور اس عاشقی کے لئے کوئی وقت بھی مقرر نہیں ہے۔ صبح سے لے کر شام اور رات کے کسی بھی وقت عاشق اپنے معشوق کے لئے اٹھتا ہے۔
یہ وہ مقام و مرتبہ ہے، جو امام حسین علیہ السلام جیسے عظیم انسانوں کو دیا جاتا ہے اور ایسی ہستیوں کو دیا جاتا ہے، جنہوں نے چالیس سال تک ان طریقوں پر کام کیا ہو۔ یہ مقام و مرتبہ خدا کی طرف سے دیا جانے والا مقام و مرتبہ ہے اور انسان تنہاء اسے حاصل نہیں کرسکتا۔ ہاں! انسان مقدمہ سازی کرسکتا ہے اور اس مقام تک پہنچنے کے لئے جن اعمال کی ضرورت ہے، وہ ان اعمال کو بجا لا کر مقدمات فراہم کرسکتا ہے، لیکن اگر وہ واقعی یہ چاہتا ہے کہ اس کے دل میں خدا کی محبت بھڑک اٹھے اور اس کے دل میں خدا کی محبت کی آگ بھڑک رہی ہو تو خدا کو یہ مقام اسے ضرور دینا چاہیئے۔ عاشق انسان جو کچھ بھی کرتا ہے، وہ معشوق کی توجہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کرتا ہے اور معشوق کی خواہش کے برخلاف کوئی عمل نہیں کرتا۔جب تک معشوق کی طرف سے کوئی کوشش نہ ہو، بیچارہ عاشق کہیں نہیں پہنچتا۔
مرتبۂ ہفتم: مقامِ عنداللّهی ہے۔ یعنی ایک مخلص انسان نیک اور شائستہ عمل مقامِ الہیٰ تک پہنچنے کی نیت اور شوق کے ساتھ کرتا ہے۔ یہ درجہ اخلاص کا اعلیٰ اور ارفع ترین درجہ ہے، جو عام لوگوں کو نہیں دیا جاتا، بلکہ یہ مقام و مرتبہ اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ مختص ہے۔ البتہ جو کچھ افراد معصوم جیسے ہوتے ہیں، وہ بھی بعض اوقات اس درجے پر فائز ہو جاتے ہیں۔ اخلاص کے اس درجے پر ہر عمل اور عبادت کا جذبہ، محرک اور اصل ہدف صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس مرحلے میں خدا کے سوا کوئی شئ انسان کے مدنظر نہیں ہوتی۔ ممکن ہے کہ عام لوگ اس مقام پر ایک لحظہ یا چند گھنٹوں کے لئے پہنچیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کی تمام عبادات اور قول و فعل میں یہ رنگ ہو۔ اگر کوئی عام آدمی یہ کہے کہ میں اس مقام پر پہنچ چکا ہوں تو وہ غلط ہے۔ ایسا دعویٰ کرنے کے لئے ہمیں مولا امیر المؤمنین علیہ السلام بننا ہوگا۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: “خدا کے سوا میرا کوئی مقصد نہیں۔” جیسا کہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:«مَا عَبَدْتُکَ خَوْفاً مِنْ نَارِکَ وَ لَا طَمَعاً فِی جَنَّتِکَ لَکِنْ وَجَدْتُکَ أَهْلًا لِلْعِبَادَةِ فَعَبَدْتُک»[۶]. “خدایا! میں نے تیری عبادت نہ تیری جہنم کے خوف سے اور نہ ہی تیری جنت کی لالچ میں کی ہے، بلکہ میں نے تجھے عبادت کے لائق پا کر تیری عبادت کی ہے۔”
فرعون کی بیوی حضرت آسیہ نے خدا کے دین کی بہت زیادہ خدمت کی۔ حضرت موسیٰ سلام الله علیہ کو فرعون کے گھر میں ہی پالا اور اپنی حیثیت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نبوت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے سے پہلے مستضعفین، بنی اسرائیل اور مظلوموں کی حتی الامکان خدمت کی، چنانچہ فرعون نے انہیں اذیت و آزار دے کر پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔ فرعون نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور حضرت آسیہ پر ان کے درمیان طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور غیر انسانی اذیت و آزار کے بعد انہیں پھانسی دے دی اور خدا، دین و معنویت، مظلوموں کی خدمت اور خدمت خلق کے جرم میں شہید ہوگئیں۔ قرآن مجید نے حضرت آسیہ کی زبانی نقل کیا ہے: «رَبِّ ابْنِ لی عِنْدَکَ بَیْتاً فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنی مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَ نَجِّنی مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمین»[۷]؛ “پروردگارا! میرے لئے اپنے ہاں جنّت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور مجھے ظالم قوم سے رہائی بخش دے۔”
یعنی اگر وہ گھر تیرے عشق، تیری محبت اور تیری رحمت سے خالی ہو اور چاہے وہ گھر جنت میں ہی کیوں نہ ہو، مجھے وہ گھر نہیں چاہیئے۔ خدایا! میرے لئے یہ اذیت و آزار میری تسلی اور ظالموں کے ہاتھوں سے نجات کا باعث ہے، تاکہ میں یہ مظالم دوبارہ نہ سہ سکوں۔ لیکن خدایا! ایسا بھی نہیں ہے کہ میں جنت میں جاؤں یا جہنم میں نہیں جاؤں یا تُو مجھے بہت زیادہ اجر و ثواب دے، بلکہ یہ سب میں صرف اور صرف تیرے لئے برداشت کر رہی ہوں۔ خدایا! تیرے بغیر جنت میرے لئے جہنم ہے۔ وہ جنت جس میں تم نہ ہو، وہ میرے لئے بے فائدہ ہے۔ اگر میں تمہارے ساتھ ہوں اور تم میرے ساتھ ہو، میں جہاں بھی ہوں تو یہ مرحلہ میرے لئے لذت بخش ہوگا۔ یہ مقام، خلوص کا آخری مقام ہے، لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لئے جگر چاہیئے اور ایسے اعلیٰ و ارفع مقام تک پہنچنے کے لئے کئی سال لگ جاتے ہیں، تاکہ کوئی یہ دعویٰ کرسکے، جو میں جانتا ہوں کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور امیر المؤمنین علیہ السلام جیسے ہی یہ دعویٰ کرسکتے ہیں اور اگر کسی کو یہ مقام مل جائے تو اس مقام کو مقامِ عنداللہیٰ کہتے ہیں۔ انسان کو مقامِ عنداللہیٰ تک پہنچنے کے لئے ایک ایک کر کے سیر و سلوک کی ساتوں منازل (یقظہ، توبہ، تقویٰ، تخلیہ، تحلیہ، تجلیہ اور لقاء) کو طے کرنا پڑے گا۔
قرآنِ کریم نے امام حسین علیہ السلام کو مقامِ عنداللهیٰ کا مصداق قرار دیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے روزِ عاشورا اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیا اور اس قربانی میں آپ علیہ السلام کے مدنظر صرف اور صرف خدا کی رضا تھی۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: «یاأَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ، ارْجِعی إِلی رَبِّکِ راضِیَةً مَرْضِیَّةً، فَادْخُلی فی عِبادی وَ ادْخُلی جَنَّتی»[۸]؛ “تو اے سکون و اطمینان یافتہ نفس! اپنے پروردگار کی طرف پلٹ جا، اس حالت میں کہ تو بھی اس سے راضی ہے اور وہ بھی تجھ سے راضی ہے اور میرے بندوں کی صف میں داخل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔” خدا کی جانب سے آواز آئی، اے حسین علیہ السلام! آئیں آئیں! عام جنت، جنتِ عدن اور جنتِ رضوان تمہارے لئے بہت ہی چھوٹا مقام ہے، تم میرے پاس آؤ۔ یہ ہے مقامِ عنداللهی اور اسے خدا کی جنت کہتے ہیں اور یہ جنت خدا اسے عطا کرتا ہے، جو راضی بھی ہو اور مرضی بھی ہو، یعنی خدا اس سے راضی اور وہ خدا سے راضی ہے۔ یہاں پر عاشورا برپا ہوتا ہے، کیونکہ امام حسین علیہ السلام منزل مقصود تک پہنچ گئے تھے اور ہدف، خدا کا دین اور خدا کی رضا تھا اور آخری ہدف مقامِ عند اللہیٰ تک پہنچنا تھا۔ اسے اخلاص کا آخری مقام کہا جاتا ہے۔ خلوص کے سات مراتب یا درجات میں سے یہ آخری درجہ و مرتبہ ہے۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ خدا تک پہنچنے کے لئے ہمیں انہی مقامات تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ انسان خلیفۃ اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے وقت فرشتوں سے فرمایا: «وَ إِذْ قالَ رَبُّکَ لِلْمَلائِکَةِ إِنِّی جاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلیفَةً»[۹]. “جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں روئے زمین پر ایک جانشین اور حاکم مقرر کرنے لگا ہوں۔” ہمیں مقامِ الہیٰ تک پہنچنے کے لئے خلق کیا گیا ہے، اگر آپ سے پوچھیں کہ آپ کس لئے پیدا کئے گئے ہیں۔؟ آپ کہہ دیں کہ قرآن مجید کے مطابق پوری کائنات ہمارے لئے خلق کی گئی ہے اور ہم خدا کے لئے خلق ہوئے ہیں۔ حضرت موسیٰ سلام اللہ علیہ سے خطاب ہوا: «وَ اصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِی»[۱۰]؛ “اور میں نے تیری اپنے لئے پرورش کی۔” اللہ تعالیٰ نے انسان کو خالص کرنے اور ایک خاص مقام تک پہنچانے کے لئے خلق فرمایا ہے، جہاں وہ رات کی تاریکی میں دنیا وما فیہا سے منہ موڑ لیتا ہے، کیونکہ اللہ کا عشق اس کے دل میں جلوہ گر ہوچکا ہے۔
عرفان کے ان حالات کو بیان کرنے کے لئے قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے: «تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفاً وَ طَمَعاً وَ مِمَّا رَزَقْناهُمْ یُنْفِقُونَ، فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ ما أُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ جَزاءً بِما کانُوا یَعْمَلُونَ»[۱۱]. “ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں، اس حال میں کہ وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ سو کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لئے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے۔ یہ ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔” یہ آیت، نمازِ شب سے اہل معرفت کی معنوی لذت اور رات کی تاریکی میں خدا سے ان کی مخلصانہ دعاؤں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اہل معرفت خُدا کے ساتھ رابطے کے دوران مدہوش ہو جاتے ہیں اور خدا کے ساتھ عاشقی اور گفتگو کرنے کے دوران ان کی توجہ کہیں بھی نہیں ہوتی، کبھی وہ اپنے خدا کو خوف کی حالت میں پکارتے ہیں اور کبھی امید اور رحمت کے ساتھ خدا سے راز و نیاز کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی حالت دوسری حالت سے برتر نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[۱]۔ نهج البلاغه، خطبۀ ۶۳
[۲]۔ بحارالأنوار، ج ۶۷، ص ۱۸۶
[۳]۔ سورۂ مبارکۂ نور، ۳۳
[۴]۔ الکافی، ج ۲، ص ۹۵
[۵]۔ علل الشّرائع، ج ۲، ص ۳۶۳
[۶]۔ بحارالأنوار، ج ۶۷، ص ۱۸۶
[۷]۔ سورۂ مبارکۂ تحریم، ۱۱
[۸]۔ سورۂ مبارکۂ فجر، ۲۷ تا ۳۰
[۹]۔ سورۂ مبارکۂ بقره، ۳۰
[۱۰]۔ سورۂ مبارکۂ طه، ۴۱
[۱۱]۔ سورۂ مبارکۂ سجده، ۱۶ و ۱۷