علامہ عارف الحسینی کی سیاسی جدوجہد

علامہ عارف الحسینی نے منصب قیادت قبول کرنے سے انکار کیا کہ انکی لوگوں سے جان پہچان نہیں۔ وہ نوجوان ہیں اور بزرگ علماء کی موجودگی میں اتنا اہم منصب نہیں سنبھال سکتے۔ انکی مادری زبان پشتو ہے، اردو صحیح نہیں بول سکتے، لیکن انکے تمام دلائل کے مقابلے میں علماء نے شرعی ذمہ داریوں کا احساس اور ساتھ دینے کا یقین دلایا تو انہوں نے بزرگ علماء کے اصرار پر اس منصب کو قبول کرلیا۔

0 574

تحریر: ابن آدم راجپوت

علامہ عارف حسین الحسینی دینی سیاست کا بڑا نام ہے، جنہوں نے پیواڑ پارا چنار کے سادات خاندان میں 1946ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں دینی تعلیم کیلئے داخل ہوگئے۔ فیصل آباد کے ایک مدرسے میں بھی مناظرانہ تعلیم کیلئے کچھ عرصہ رہے، مگر مزاج انقلابی اور اتحادی تھا، واپس آگئے۔ مدرسہ جعفریہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد علامہ عارف الحسینی عراق اور ایران پہنچے۔ یہاں حوزہ علمیہ نجف اور قم میں انہوں نے شہید محراب آیت اللہ مدنی، آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ حرم پناہی جیسے جید علماء سے کسب فیض کیا۔ عراق قیام کے دوران ان کی ملاقات امام خمینی سے ہوئی، جو یہاں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، جبکہ ایران میں انقلاب اسلامی کی تحریک چل رہی تھی۔ علاقے کے حساس حالات کے پیش نظر پاراچنار واپس لوٹے تو ان دنوں علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی قیادت میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کیخلاف جدوجہد شروع ہوچکی تھی۔ پاراچنار میں ان کا پرتپاک استقبال کیا اور تحریک میں ان کے ساتھی بن گئے۔

اگست 1983ء میں مفتی جعفر حسین مرحوم دار فانی سے کوچ کر گئے تو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی قیادت کا انتخاب ایک کٹھن مرحلہ ثابت ہوا۔ تنظیم سازی نامکمل ہونے کے باعث تحریک کے دستوری ادارے بھی مکمل نہ تھے۔ اس بات کا ادراک کرتے ہوئے تحریک پاکستان کے کارکن سید وزارت حسین نقوی ایڈووکیٹ نے ٹی این ایف جے کے قائم مقام صدر مولانا صفدر حسین نجفی اور آیت اللہ محمد حسین نجفی کیساتھ ملک کے مختلف اضلاع کے دورے کیے، تاکہ تنظیم کے دستوری تقاضے پورے کرکے مرکزی کونسل کی تشکیل مکمل کی جائے۔ اسی دوران ایک خود ساختہ قیادت کو بھی دینہ سے لانچ کر دیا گیا تھا، لیکن تحریک کی نئی قیادت کے انتخاب کیلئے علماء کا اجلاس قصر زینب بھکر میں طلب کر لیا گیا۔ جہاں ایک روزہ اجلاس تین دنوں تک طوالت اختیار کر گیا۔ تمام علماء کا مولانا صفدر حسین نجفی کو قیادت دینے پر اتفاق ہوچکا تھا۔ انہوں نے اس بنا پر معذرت کرلی کہ وہ مدارس دینیہ کی تشکیل، قرآن مجید کی تفسیر اور کتب اسلامی کی تصنیف میں مصروفیت کے باعث قیادت کے منصب کا حق ادا نہیں کرسکیں گے۔ تو پھر 38 سالہ نوجوان عالم دین علامہ عارف حسین الحسینی کو قائد تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔

علامہ عارف الحسینی نے منصب قیادت قبول کرنے سے انکار کیا کہ ان کی لوگوں سے جان پہچان نہیں۔ وہ نوجوان ہیں اور بزرگ علماء کی موجودگی میں اتنا اہم منصب نہیں سنبھال سکتے۔ ان کی مادری زبان پشتو ہے، اردو صحیح نہیں بول سکتے، لیکن ان کے تمام دلائل کے مقابلے میں علماء نے شرعی ذمہ داریوں کا احساس اور ساتھ دینے کا یقین دلایا تو انہوں نے بزرگ علماء کے اصرار پر اس منصب کو قبول کرلیا۔ پاکستان میں مروج نظام قیادت میں سید محمد دہلوی اور مفتی جعفر حسین کے بعد علامہ عارف الحسینی تیسرے قائد ملت جعفریہ تھے۔ علامہ عارف الحسینی 10 فروری 1984ء کو قیادت کا منصب سنبھالنے کے بعد گھر جانے کی بجائے سیدھے لاہور پہنچے۔ جہاں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی ہدایت پر سید منیر حسین گیلانی نے اگلے لائحہ عمل کے اعلان کیلئے اجلاس اور پریس کانفرنس کا اہتمام کر رکھا تھا۔

پریس کانفرنس میں ایک صحافی کے سوال کے جواب میں علامہ عارف الحسینی نے صاف کہہ دیا کہ انہوں نے علم دین حاصل کیا ہے۔ قرآن و حدیث، عربی، فارسی، علم منطق، فلسفہ کے علوم کو تو جانتے ہیں۔ انہیں نئی ذمہ داریاں ملی ہیں، مگر آئین پاکستان کو نہیں پڑھا۔ جس پر صحافی ان کی لاعلمی سے زیادہ صاف گوئی پر حیران ہوئے۔ پھر یہی شخصیت ایسی تیار ہوئی کہ ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے آمریت کو چیلنج کیا۔ جمہوری قوتوں کیساتھ سیاسی جدوجہد اور عوامی حقوق کی بات ڈنکے کی چوٹ پر کی۔ ملکی دورے کیے، تحریک کو مضبوط کیا۔ تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ عملی سیاست میں باقاعدہ شمولیت کا فیصلہ کیا۔ جس کا اعلان 6 جولائی 1987ء کو مینار پاکستان کے سبزہ زار میں ہونیوالی کانفرنس میں اعلان کیا۔ یہاں انہوں نے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا، جس پر آج تک تمام تنظیمیں عمل کر رہی ہیں۔

راقم کو بھی اس کانفرنس میں علامہ عارف الحسینی کی پہلی بار زیارت کا موقع ملا، جب نویں جماعت کا طالب علم اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شمولیت کو ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ پھر ان کا نورانی چہرہ دیکھنے اور تقریر سننے کا اسی سال جامعة المنتظر میں آئی ایس او کے سالانہ کنونشن پر موقع ملا۔ باقی اسلامی مکاتب فکر کی جماعتوں کی طرح شیعہ تنظیمیں بھی تقسیم ہوئیں، مگر شہید عارف الحسینی کی ذات پر سب کا اتفاق ہے۔ ان کی فعالیت اور ملی بیداری دیکھ کر استعماری قوتوں نے 5 اگست 1988ء کو انہیں اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے مدرسہ معارف الاسلامیہ پشاور میں سفاک قاتل کے ذریعے شہید کروا دیا، جب وہ نماز فجر کی ادائیگی کیلئے جا رہے تھے۔ ان کی شہادت کی خبر ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ عوام نے پشاور کا رخ کیا، نماز جنازہ میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق، ولی فقیہ امام خمینی کے نمائندے آیت اللہ جنتی اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماء بھی شریک ہوئے۔ علامہ عارف الحسینی اپنے گاوں میں ہی مدفون ہوئے۔ آج بھی نہ صرف ہر سال شہید عارف الحسینی کی برسی پر بلکہ سال کے تمام ایام میں لوگ ان کے مزار پر حاضری کیلئے آکر روحانی سکون پاتے ہیں۔

راقم کو بھی 2018ء میں دوستوں کیساتھ 1993ء کے بعد دوسری بار پیواڑ ان کے مزار اقدس پر جانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ افغانستان کی سرحد کیساتھ واقع بلند و بالا پہاڑوں میں گھرے ان کے مزار پر عجیب روحانی سکون محسوس ہوتا ہے۔ ان کے قریبی ساتھی حاجی کمال حسین سے بھی ملاقات اور ان کے حجرے میں پرتکلف ناشتے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کے بعد ان کے بااعتماد ساتھی سینیئر نائب صدر علامہ ساجد علی نقوی کو ان کے جانشین کے طور پر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے اداروں نے منتخب کر لیا۔ جنہوں نے شہید عارف الحسینی کے چھوڑے نقوش پر تحریک کی قیادت کی۔ اس حوالے سے وہ ایک طویل سفر طے کرچکے ہیں۔ خاص طور پر شہید عارف الحسینی کی طرف سے شروع کردہ عملی سیاست کو انہوں نے مشکل حالات کے باوجود جاری رکھا۔ انہوں نے اپنی سیاست کو ملی حقوق کے تحفظ کا مقصد قرار دینے کیساتھ اتحاد امت کو فروغ بھی دیا۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.