نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نےکہا ہےکہ لاپتہ افرادکے لواحقین پہلے بھی احتجاج کرتے رہے ہیں آئندہ بھی کریں گے، احتجاج کا سب کو حق ہے مگر آئین کے اندر رہ کر کرنا چاہیے۔
مجھے خوشی ہوئی پنجاب کے لوگوں کو بلوچستان کے لوگوں سے ہمدردی ہے، 9 مئی کو احتجاج کرنے والوں کا بھی یہی ایشو تھا وہ قانون کے دائرے سے باہر آگئے تھے۔
احتجاج والوں کے ساتھ پولیس کی جھڑپ کو غزہ سے جوڑا جا رہا ہے، جو یہاں کی صورتحال غزہ سے جوڑ رہے تھے ان کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔
کسی نے پوچھا کہ بلوچستان میں مسلح تنظیمیں لوگوں کو قتل کیوں کرتی ہیں؟ کوسٹل ہائی وے پر 14 افراد جل کر مرگئےکسی نے نہیں پوچھا کہ قاتل کیوں نہیں پکڑے، بلوچستان میں ٹیچرز ، وکلا ، مزدور قتل ہو رہے ہیں کسی کے منہ سے لفظ تک نہیں نکلتا۔
احتجاج کی آڑ میں دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے والوں کو قبول نہیں کریں گے، جن لوگوں نے حمایت کرنی ہے وہ ان مسلح تنظیموں کا کیمپ جوائن کریں، اپنے پیاروں کے لیے احتجاج کرنے والوں کو حق ہے۔
باقی صرف تنقید کر رہے ہیں، یہ ریاست اور مسلح تنظیموں کے درمیان جھگڑا ہے، یہ مسلح لوگ 3 سے 5 ہزار لوگوں کو مار چکے ہیں، یہ لوگ دہشت گردی کو جدوجہد کہتے ہیں۔
بلوچستان میں مسلح تنظیمیں پاکستان کو توڑنےکی مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں، اگر آپ وہاں گئے تویہ آپ کو گولی ماریں گے، میں ان کے ہتھے چڑھا تو مجھے گولی ماریں گے۔
یہ مسلح تنظیمیں اپنے موقف کا عملی اظہار کرتے آرہی ہیں، دہشت گردوں کے بھی لواحقین ہوتے ہیں، بہت سارے لوگ ان کے لیے احتجاج کرتے ہیں، ہم ان کے احتجاج کو تسلیم کرتے ہیں لیکن دہشت گردی کے حق کو تسلیم نہیں کرتے۔