غزہ میں جنگ بندی کب ہوگی اور فائدہ کس کو ہوگا؟

0 181

ملبے کے ڈھیر غزہ میں جنگ بندی کے لیے صیہونی حکومت پرمغربی دباؤ اچانک بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔

7 اکتوبر کو صیہونی حکومت پرحماس کے حیران کُن حملے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ صیہونی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت اس قسم کی تنقید کی زد میں آئی ہے۔ اس سے پہلے تو ایک ایک روز میں 800، 800 فلسطینیوں کو شہید کیا جاتا رہا ہے مگر سب چُپ کا روزہ رکھے ہوئے تھے۔

سوال یہ ہے کہ اس وقت جنگ بندی کا فائدہ صیہونی حکومت کو ہوگا یا فلسطینیوں کو؟ یہ بھی کہ جنگ بندی ہوگی کب اور شرائط کیا ہوں گی؟

16 اکتوبر کو میں نے جیونیوزانگریزی ویب سائٹ کے لیے کالم لکھا تھا جس میں اس جنگ کے سبب مشرق وسطیٰ کے راستے مجوزہ تجارتی راہداری کو لاحق خطرات کا ذکر کیا تھا۔اسی مضمون میں یہ بھی واضح کیا تھا کہ فوجیوں سمیت اپنے تقریبا دوہزار شہریوں کی حماس کے ہاتھوں ہلاکت کے جواب میں صیہونی حکومت کم سے کم 20 ہزار فلسطینیوں کا خون تو بہا کر ہی دم لے گا۔

اس وقت چونکہ تقریباً 2800 فلسطینی شہید کیے گئے تھے۔ اس لیے 20 ہزار فلسطینیوں کی موت کا تصور بظاہر غیر معقول تھا۔ بعض افراد یہ بات ماننے کے لیے اس لیے بھی تیار نہ تھے کیونکہ انہیں نام نہاد مسلم امُہ کی غیرت بریگیڈ پر یقین تھا جو ان کے نزدیک فلسطینیوں کے حق میں آہنی ڈھال کی مانند کھڑی ہونا تھی۔

میرے نزدیک حقیقت پسندی اور تاریخ سے سبق زیادہ اہم تھا۔ میرے تخمینے کی بنیادی وجہ وہ 25 برس کا صحافتی تجربہ تھا جس میں مسلسل یہ نوٹ کیا تھا کہ صیہونی حکومت اپنے ہر شہری کی موت کا بدلہ لیتے ہوئے کم سے کم دس فلسطینیوں کو قتل کرتا ہے۔

بچوں کی دلچسپ کہانی ‘بادشاہ ننگا نکلا’ کی مثال دیتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ چونکہ حماس نے صیہونی حکومت کو پہلی بار دنیا کے سامنے اس قدر کمزور ثابت کیا ہے، اس لیے یہ کہا ہی نہیں جاسکتا کہ اس بارمسلط کردہ تباہی کس قدر بھیانک ہوگی اور اس نسل کشی کے نتائج کیا ہوں گے؟

اب تقریباً 20 ہزار فلسطینیوں کی شہادت اور 7 ہزار سے زائد لاپتا یا دوسرے لفظوں میں ممکنہ طورپر ملبے تلے دب کر جاں بحق ہونے کی وجہ سے مجموعی اموات 27 ہزار تک پہنچی ہیں تو جنگ کے اگلے مرحلے کا ذکر کرنے کا مناسب وقت آگیا ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ اس وقت صیہونی حکومت 90 فیصد سے زائد فلسطینیوں کو جبراً بیدخل کرچکا ہے، 60 فیصد سے زائد عمارتیں اور مکانات کھنڈر بنا دیے گئے ہیں جو حماس کے جنگجوؤں کی محفوظ پناہ گاہوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ اب گوریلا جنگ جاری ہے جس میں صیہونی حکومت کے ٹینکوں کو چند فٹ کے فاصلے سے ایسے ہدف بنایا جارہا ہے جیسے گلیوں، محلوں میں بچے کنچے کھیلتے ہیں۔ ایک ہی روز میں دوکمانڈرز سمیت 10 فوجیوں کا مارا جانا اس بات کی علامت ہے کہ حماس کی پوزیشن مضبوط ہونا اب شروع ہوئی ہے۔

وجہ یہ ہےکہ حماس کے جنگجوؤں نے اسی غزہ میں آنکھ کھولی ہے، انہی گلیوں میں پروان چڑھے ہیں، بہت بڑے جانی نقصان کا سامنا کیے بغیر انہیں گوریلا جنگ میں ہرانا اس لیے بھی مشکل ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ گھروں سے سرنگوں میں روپوش کیسے ہونا ہے۔

یہ جنگجو شمالی غزہ میں کئی ہفتوں سے خوراک کی فراہمی پر پابندی کے باوجود زندہ ہیں۔ بجلی اور انٹرنیٹ کے باوجود صیہونی فوجیوں کو نشانہ بنانے کی ویڈیوزبھی ہر روز پوسٹ کررہے ہیں یعنی ایک جنگجو راکٹ لانچر چلاتا ہے تو دوسرا اس منظر کو سکون سے فلم بند کرتا ہے۔

یعنی صیہونی حکومت کو اب ایک ایسے چھلاوے کا سامنا ہوا ہے جس سے بچنا چیلنج ہے۔ یہ صورتحال صیہونی حکومت کی جانب سے زمینی کارروائی کی منصوبہ بندی میں فاش غلطیوں کی واضح عکاس ہے۔

صیہونی وزیراعظم کی یہ بھی کوشش تھی کہ لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثی، عراق میں فلسطینیوں کے ہمدردوں کو ایک ہی ساتھ کچلا جائے۔ حماس چونکہ ایران کی دھکتی رگ ہے، اس لیے ایران کو بھی جنگ میں کھینچ لیا جائے تاکہ پورے خطے کا نقشہ ایک ساتھ ہی بدل دیا جائے۔ مگر صیہونی حکومت کی جانب سے جنگ کو پھیلانے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ حزب اللہ نے ایک حد سے زیادہ کارروائی کی نہ ہی حوثیوں اور عراقیوں نے۔دھمکیاں دینے کے باوجود ایران بھی صیہونی حکومت فلسطین جنگ میں نہیں کودا۔

ایران کے جنگ میں براہ راست شامل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ایران اس وقت صیہونی حکومت سے جنگ کی پوزیشن میں نہیں۔ صیہونی حکومت پر بم برسا کر مختلف شہروں کو تباہ کرنا تو شاید ایران کے لیے آسان ہو مگر داخلی سلامتی یقینی بنانا کہیں بڑا چیلنج ہے۔

جنگ میں شامل ہونے سے گریز اس لیے بھی کیا گیا کیونکہ ایران میں اس وقت 80 لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین موجود ہیں جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، ان میں بڑی تعداد ایسے مرد افغانوں کی ہے جو اپنی فیملی کے بغیر رہ رہے ہیں۔

معیشت پران بن بلائے افغان مہمانوں کے ٹوٹ پڑنے سے پیدا اثرات اپنی جگہ، ان میں سےہزاروں ایسے بھی ہیں جو پیشہ ور جنگی تربیت رکھتے ہیں اور ایک اشارے پر چلتا پھرتا بم ثابت ہوسکتے ہیں۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.