تاحیات نا اہلی ،الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے ، چیف جسٹس

0 136

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی چلےگی یاسپریم کورٹ کا فیصلہ، اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے جب کہ تاحیات نا اہلی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے میربادشاہ قیصرانی کی نااہلی کے کیس کی سماعت کی جس میں عدالت نے تاحیات نااہلی کی مدت تعین کا معاملہ لارجزبینچ میں مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھجوادیا۔

عدالت نے کہا کہ موجودہ کیس انتخابات میں تاخیر کے آلےکے طورپراستعمال نہیں کیاجائےگا، موجودہ کیس کا نوٹس انگریزی کے دوبڑے اخبارات میں شائع کیاجائے۔

عدالت نے تاحیات نااہلی کے معاملے پر سپریم کورٹ کےفیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پرنوٹس لیا جو میر بادشاہ قیصرانی کی تاحیات نااہلی کے کیس میں لیا گیا۔

سماعت کے دوران تاحیات نااہلی سے متعلق پاناما کیس اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم زیر بحث آئیں جس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ موجودہ کیس 2018 کے انتخابات سے متعلق ہے، اب نئے انتخابات سر پر ہیں تو یہ لائیو ایشو کیسے ہے؟

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو نااہل کیوں کیا گیا؟ اس پر وکیل درخواستگزار نے کہا کہ میربادشاہ قیصرانی کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2007 میں نااہل کیا گیا لیکن ہائیکورٹ نے 2018 کے انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی، میربادشاہ قیصرانی کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے توتاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ اس پر وکیل درخواستگزار نے کہا کہ جھوٹے بیان حلفی پرکاغذات نامزدگی جمع کرانے والےکو نااہل ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پرپاناماکیس میں فیصلہ دے دیا تھا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.