سرمایہ دارانہ اور اقلیت دوست جمہوریت سے انسانی حقوق کی پامالی تک

ایران کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملت ایران ایسی واحد قوم نہیں ہے، جسے امریکہ کیجانب سے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی اور انسانی حقوق کے دہرے معیارات سے نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ دوسرے ممالک کے عوام بھی انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ اور اسکے ساتھیوں کی جارحیت کا شکار بن رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں اقلیتوں منجملہ مسلمانوں اور رنگین فاموں کے حقوق کی پامالی، امریکی ہتھیاروں سے یمن کے عوام پر روزانہ بمباری، امریکہ کے ہاتھوں عراق میں شہید جنرل سلیمانی کا بزدلانہ قتل، واشنگٹن کے ذریعے دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی کی دیگر مثالیں ہیں۔

0 456

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ایرانی کیلنڈر میں27 جون سے 3 جولائی کے ایام میں امریکی انسانی حقوق کا ہفتہ منایا جاتا ہے۔ یہ ہفتہ منائے جانے کا مقصد امریکہ کی طرف سے کیے جانے والے متعدد جرائم خاص طور پر ایرانی عوام کے خلاف انجام دیئے گئے جرائم سے دنیا کو اگاہ کرنا ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سیاسی نظام کی جو غیر حقیقت پسندانہ تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ نظام اگرچہ بعض اوقات خارجہ پالیسی میں جنگجویانہ پالیسی پر عمل پیرا ہوتا ہے، لیکن ملکی میدان میں مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی حکمران عوام کے حقیقی نمائندے ہیں اور ان کے فیصلے عوام کی مرضی کے مطابق ہیں۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ حکمران معاشرے میں مختلف گروہوں کے مفادات کے درمیان تصادم میں غیر جانبدار ہوتے ہیں اور وہ مختلف گروہوں کے مفادات کو یکساں سمجھتے ہیں۔ یہ وہ تصویر ہے جسے امریکی میڈیا پیش کرتا ہے، لیکن اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ امریکہ کے اندر انسانی حقوق ایک ایسا تصور ہے، جو قابل عمل نہیں ہے اور حقیقت میں امریکی عوام کا ایک بڑا حصہ امریکی انسانی حقوق کا پہلا شکار ہیں۔

یہاں پہلا نکتہ جو قابل بیان ہے، وہ یہ ہے کہ امریکہ میں جو جمہوریت نافذ ہے، وہ بنیادی طور پر ایک "سرمایہ دارانہ اور اقلیت دوست” جمہوریت ہے۔ امریکی مصنف اور محقق مائیکل پرینٹی امریکی سیاسی نظام کو "اقلیتی جمہوریت” کے طور پر بیان کرتے ہیں، جو اکثریت کے نام پر حکمرانی کرتا ہے، یعنی دولت مند اقلیت اپنے سرمائے کی بدولت اکثریتی عوام پر حکمرانی کرتی ہے۔ پرینٹی کا خیال ہے کہ بہت سی حکومتی پالیسیاں بڑے سرمایہ کاروں کے فائدے اور عوام کے نقصان کے لیے ہوتی ہیں، اس نظام میں امیر امیر تر ہو جاتے ہیں اور ان کے پاس اتنے پیسے ہوتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ اس سرمائے کے ساتھ کیا کریں۔ امریکہ میں غربت کی لکیر سے نیچے یا اس کے قریب رہنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکی سیاسی نظام بادشاہت پسند ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ امریکی ڈھانچے میں امریکی معاشرے کے لئے کوئی یکساں نظریہ نہیں ہے بلکہ نسلی امتیاز اب بھی امریکہ میں ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ امریکی معاشرے میں افریقی اور دوسرے رنگوں کے لوگ امریکہ میں رہتے ہیں۔ نسلی اقلیتیں امریکی معاشرے کے نچلے حصے یعنی دوسرے اور تیسرے درجے میں ہیں، یہاں تک کہ ان نسلی اقلیتوں کو روزگار اور کام کی جگہ پر بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ بے روزگار سیاہ فام امریکیوں کی تعداد گوروں سے تقریباً دوگنی ہے۔ امریکی تعلیم میں نسلی امتیاز بھی بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح امریکی ایگزیکٹو اور عدلیہ میں نسلی امتیاز بہت گہرا اور دیرینہ ہے اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف نائن الیون کے حملوں کے بعد سے اس کا رجحان شدت اختیار کر گیا ہے۔ سیاہ فام اور رنگین فام لوگوں کو عدالت میں گوروں سے کہیں زیادہ سخت سزا دی جاتی ہے۔ ریاستہائے متحدہ میں یہ علیحدگی اور نسل پرستی، نسل پرستانہ جرائم میں اضافے کا باعث بن چکی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران امریکہ میں نسلی اور مذہبی اقلیتیں پہلے سے کہیں زیادہ مظلوم ہوئیں۔ اس کی ایک واضح مثال لاطینی تارکین وطن پر دباؤ میں اضافہ اور انھیں امریکہ سے نکالنے کے لیے کیے گئے اقدامات ہیں۔ ٹرمپ دور میں صدارتی حکم ناموں پر دستخط اور نفاذ کے ذریعے قانونی پابندیوں میں اس قدر اضافہ ہوا کہ کچھ اسلامی ممالک کے شہریوں کو امریکہ کے اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ سیاہ فاموں کو امریکی معاشرے کے کسی بھی دوسرے طبقے سے زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ امریکہ میں سیاہ فاموں کے حقوق کی خلاف ورزی کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ سیاہ فام پسماندہ ہیں بلکہ پسماندہ رکھا گیا ہے، لہذا وہ امریکی معاشرے کی ترقی کا بنیادی عنصر نہیں ہیں۔ امریکی معاشرے کا تیرہ فیصد سیاہ فام ہیں اور وہ نہ صرف اقلیت ہیں بلکہ پہلے درجے کے شہری بھی نہیں سمجھے جاتے۔

اپنی صدارت کے خاتمے کے بعد سیاہ فام اوباما نے کہا تھا کہ صدارت کے دوران مجھے امریکی سیاسی برادری کی طرف سے نسل پرستانہ رویہ ملا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں کالے زیادہ پسماندہ اور کم مراعات یافتہ اقلیت ہیں، وہ بہت سے سماجی و اقتصادی اشاریوں میں بہت نچلی سطح پر ہیں۔ مثال کے طور پر سیاہ فام امریکی، گوروں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ کورونا مین مبتلا ہوئے اور سیاہ فاموں کی اموات گوروں سے دوگنی ہوئی ہے۔ تمام امریکی انتظامیہ میں سیاہ فاموں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد موجود ہیں، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ میں یہ صورت حال نمایاں ہوکر سامنے آئی۔ امریکہ کے انہی پوشیدہ حقائق کو برملا کرنے کے لئے ایران میں ستائیس جون سے تین جولائی تک ہفتہ امریکی انسانی حقوق منایا جاتا ہے، جس کا مقصد ایرانی عوام کے خلاف امریکہ کے متعدد جرائم و مظالم کی یاد دلانا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ نے اس مناسبت سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایرانی عوام کے خلاف امریکہ کی سرپرستی میں عالمی سامراج نے براہ راست اور بالواسطہ بہت سے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایرانی عوام کے خلاف امریکی جرائم میں ستائیس جون انیس سو اکیاسی میں رہبر انقلاب اسلامی پر ہونے والا ناکام قاتلانہ حملہ، جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر میں بم دھماکہ، جو آیت اللہ بہشتی کی شہادت اور ایران کے بہتر رہنماؤں اور اعلیٰ شخصیات کی شہادت پر منتج ہوا، سردشت میں کیمیاوی بمباری، اوین جیل کے سربراہ شہید کچوئی کا قتل، شہر یزد کے امام جمعہ آیت اللہ صدوقی کی شہادت اور خلیج فارس میں ایران کے مسافر بردار طیارے کو میزائل کا نشانہ بنانے کی دہشتگردانہ کارروائی کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران ایک ایسا ملک ہے، جس نے امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کئے جانے کی بنا پر سخت نقصان اٹھایا ہے۔

وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے یکطرفہ دشمنانہ پابندیاں ایران کے عوام کے قانونی اور فطری حقوق کو پامال کرنے کے ایک ایسے ہتھکنڈے میں تبدیل ہوگئی ہیں، جس نے ایرانی عوام سے زندگی، صحت و سلامتی، مناسب معیار زندگی، سائنس و ٹیکنالوجی، ترقی و پیشرفت کا حق سلب کر لیا ہے اور اس سے خواتین، بچوں، بزرگوں اور معذور افراد کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملت ایران، ایسی واحد قوم نہیں ہے، جسے امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی اور انسانی حقوق کے دہرے معیارات سے نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ دوسرے ممالک کے عوام بھی انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی جارحیت کا شکار بن رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں اقلیتوں منجملہ مسلمانوں اور رنگین فاموں کے حقوق کی پامالی، امریکی ہتھیاروں سے یمن کے عوام پر روزانہ بمباری، امریکہ کے ہاتھوں عراق میں شہید جنرل سلیمانی کا بزدلانہ قتل، واشنگٹن کے ذریعے دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی کی دیگر مثالیں ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.