سپریم کورٹ میں سابق صدر مرحوم پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی حیثیت سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز وعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ نے جو ریلیف دیا وہ تو مانگا ہی نہیں گیا تھا، فیصلہ اگر درست بھی ہو تو دائرہ اختیار نہ ہونے پر برقرار نہیں رہ سکتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے جو دائرہ اختیار استعمال کیا وہ حیران کن ہے، لاہور ہائی کورٹ نے ہائی کورٹ کے ہی تین ججز کے خلاف رٹ جاری کر دی؟ لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار کن بنیادوں پر استعمال کیا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کا بغیر اختیار دیا گیا ججمنٹ،”ججمنٹ” کہلائے گا؟ جب وہ ججمنٹ ہی نہیں تو جو چیز موجود ہی نہیں، اسے کالعدم کیسے کیا جاسکتا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا وفاق نے بھی دائرہ اختیار پر اعتراض نہیں کیا،اس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ عدالتی معاون نے بھی کچھ نہیں کہا وہ بھی ایک صفحہ پر تھے، یہ ایک نقطہ کیا کوئی آئینی دستاویز ہے؟
وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کو کارروائی آگے بڑھانے کا حکم دیا تھا۔سپریم کورٹ نے کہا ملزم سرنڈر نہ کرے تو بھی کارروائی چلائی جا سکتی ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے نوٹس میں بھی لایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں مشرف کی درخواست اٹارنی نذیر احمد نے دائر کی تھی، اٹارنی کی درخواست کیساتھ بیان حلفی پرویز مشرف کا ہی لگایا گیا تھا،بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 28 نومبر تک ملتوی کر دی۔