اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ جبری گمشدگی کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کے کیس میں کہا کہ کمیشن کی سفارشات کے مطابق 55 لاپتہ بلوچ طلباء پیش کریں ورنہ نگران وزیرِ اعظم پیش ہوں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلباء کی عدم بازیابی پر 29 نومبر کو نگراں وزیرِ اعظم کو طلب کر لیا، وزیرِ دفاع، وزیرِ داخلہ، سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ بھی پیش ہوں۔
عدالتی حکم پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے،جسٹس محسن اخترکیانی نے استفسار کیا کہ آج اس کیس کی 21ویں سماعت ہے، اس سے قبل جسٹس اطہر من اللّٰہ جو چیف جسٹس تھے ان کے پاس تھا یہ کیس، عدالت کے حکم پر کمیشن بنا۔
صرف ایک کا نہیں 51 بلوچ طلباء کا معاملہ تھا، ہم نے ملک کے وزیرِ اعظم کو معاملہ بھیجا تھا، وزیرِ اعظم کو خود احساس ہونا چاہیے تھا، ہم سمجھے وہ آکر کہیں گے یہ ہمارے بچے ہیں، اگر ان کے خلاف کوئی کرمنل کیس تھا تو رجسٹرڈ کرتے، آپ رپورٹ پڑھیں جو ہمیں پیش کی گئی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو بھی معاملہ ہو متعلقہ وزارت دیکھتی ہے یا سب کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے، کمیٹی پھر معاملہ وزیرِ اعظم اور کابینہ کے ساتھ شیئر کرتی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس ہائی کورٹ نے وزیرِ اعظم کو بلایا تھا، جو کمیشن تھا اس میں کافی ہائی پروفائل لوگ شامل تھے، سب لکھا گیا، اس سب کے باوجود کوئی پیش رفت کیوں نہیں ہوئی؟
کمیشن کا اصل مقصد تھا جو لوگ لاپتہ ہیں انہیں بازیاب کرانا، یہ عدالت کتنے فیصلے دے چکی، لاپتہ افراد کمیشن نے کوئی کام نہیں کیا، یہ بہت بڑا المیہ ہے، عدالت نے تو اپنا کام کرنا ہے اور اس پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے ۔