مشکلات کا شکار پاکستان کے شیعی مدارس

گزرتے وقت کیساتھ شیعی مدارس رُو بہ زوال ہیں۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، دائرہ امتحانات لاہور اور مدارس کے مہتمم، ان مسائل سے مسلسل آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ ملک میں جہاں دیگر مسالک کے مدارس میں جدت آرہی اور طلباء میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں شیعی مذہبی مدارس تنزلی کا شکار ہیں۔ گزرتے وقت کیساتھ متعدد مدارس بند ہوچکے ہیں، کئی ایک کی عمارتیں بھی بیچی جا چکی ہیں۔ یہ سنجیدہ مسائل ہیں، لیکن ان پر بات کرنا منع ہے۔ ملک میں کبھی ان مدارس کے مسائل پر کانفرنس، سیمینار یا میٹنگ نہیں ہوئی۔ ہر طرف خاموشی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی رہنماء ملکر بیٹھیں اور ان مسائل کا حل نکالیں۔

0 168

تحریر: امجد عباس مفتی

پاکستان میں سرکاری سطح پر شیعہ آبادی پندرہ سے بیس فیصد تک بتائی جاتی ہے، جبکہ شیعہ رہنماؤں کے مطابق یہ تعداد تیس فیصد تک ہے۔ اس بڑی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے، ملک میں دیگر مسالک کے مذہبی مدارس اور مساجد کو دیکھا جائے تو اہلِ تشیع کے مدارس اور مساجد کی تعداد، آٹے میں نمک کی سی قرار پاتی ہے۔ مُلک کے مختلف حصوں میں موجود شیعہ مدارس (جو ایک اندازے کے مطابق چار سو کے لگ بھگ ہیں) شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اِن میں طلباء کی تعداد، دیگر مسالک کے مدارس کی نسبت انتہائی کم ہے۔ بعض مدارس میں پانچ سے دس طلباء موجود ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد ایک مدرسے میں ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے، جبکہ لاہور کے تاریخی اور قدیمی شیعہ مدرسے میں یہ تعداد تین سو سے کم ہوگی، اتنی ہی تعداد اسلام آباد میں موجود ایک بڑے شیعی مدرسے میں طلاب کی ہے۔ ہر سال جہاں داخلے کے لیے آنے والے طلباء کی تعداد میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے، وہیں مدارس کے "نصاب” کا بھی مسئلہ پیچیدہ صورت اختیار کرچکا ہوا ہے۔ زیادہ تر مدارس بیک وقت وفاق المدارس الشیعہ پاکستان اور دائرہ امتحانات لاہور کے نام سے دور اداروں سے وابستہ اور انھیں کے نصابوں کو پڑھاتے ہیں۔

دائرہ امتحانات نامی ادارے کے نصاب کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ سال جبکہ وفاق المدارس الشیعہ کے نصاب کی مدت آٹھ سال ہے۔ دائرہ اور وفاق دونوں کے نصاب میں متعدد مشکلات ہیں۔ دونوں کے نصاب میں قرآن مجید اور احادیثِ نبوی، فرامینِ اہلِ بیتؑ، سیرتِ نبوی و ائمہ اہلِ بیتؑ اور کلام جیسے مضامین کے پڑھانے کا "خاص” بندوبست موجود نہیں ہے۔ سب سے زیادہ زور "عربی نحو و صرف”، منطق، اصول فقہ اور فقہ پر ہے۔ اِن علوم کی تدریس کے لیے جہاں "ماہر” اساتذہ کا فقدان ہے، وہیں اس سلسلے میں منتخب کتب میں بھی مسائل ہیں اور نصاب میں ترتیب کا فقدان ہے۔ فقہ میں توضیح المسائل، شرح لمعہ اور المکاسب پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ فقہی متون ہیں۔ علمِ فقہ، اس کے بنیادی مباحث، کلیات و قواعد فقہیہ، تاریخ فقہ و فقہا کی تدریس کا ذرا اہتمام نہیں کیا جاتا، یہی وجہ ہے کہ لمبے فقہی متون کی تدریس کے باوجود پاکستانی مدارس "فقہا” پیدا کرنے سے بانجھ ہیں۔

اصول فقہ میں اصول فقہ للمظفر، الموجز، الرسائل اور کفایۃ الاصول جیسی کتب پڑھائی جاتی ہیں۔ اصول فقہ کی عملی تطبیق نہیں کروائی جاتی۔ طلبا کو قرآن، تفسیر، علوم قرآن، حدیث، علومِ حدیث؛ درایہ، رجال اور فقہ الحدیث کی تدریس کا کچھ اہتمام نہیں کیا گیا۔ اسی طرح علم کلام پر بھی کچھ خاص کتب نہیں پڑھائی جاتیں۔ سیرت اور تاریخ اسلام کے حوالے سے بھی مدارس میں کوئی اہتمام نہیں ہے۔ سال بھر میں ملک کے مدارس میں علمی سیمینارز کا اہتمام نہیں ہوتا، ہاں مجالس عزاء ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں شیعہ علماء کا پڑھنے، لکھنے اور پڑھانے سے تعلق برائے نام ہی رہ گیا ہے، اب اُن کی بڑی توجہ مجالسِ عزا کی طرف ہوا کرتی ہے۔ ملک میں جہاں دیگر مسالک کے علماء نے قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، عقائد، کلام، سیرت و تاریخ جیسے اسلامی علوم پر بے تحاشا کتب لکھیں، وہیں شیعہ علماء کی خدمات زیادہ سے زیادہ تراجم کی حد تک ہیں۔ قیام پاکستان سے اب تک صرف چند نام گنوائے جا سکتے ہیں، جنھوں نے کچھ کتابیں لکھیں۔ قیامِ پاکستان سے اب تک چار، پانچ شیعہ تفاسیر اردو میں لکھی گئی ہیں۔ فقہ پر ایک کتاب لکھی گئی ہے، "قوانین الشریعہ” کے نام سے، باقی اسلامی علوم میں بھی تراجم کے علاوہ بہت کم کام ہوا ہے۔ ہاں آئے روز خطباء کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس میں اہلِ تشیع کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔

مدارس کو درپیش مسائل پر کسی فورم پر بات نہیں کی جا سکتی، اس حوالے سے نہ کوئی بات سننے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ ملک میں شیعہ مدارس میں میرٹ کے بجائے، تعلق اور رشتہ داری کی بنا پر اساتذہ اور پرنسپل کی تعیناتی، اُن کی انتہائی کم تنخواہیں، اُن کا مناسب تدریسی روشوں سے لاعلم ہونا اور اچھے علماء کا مکمل توجہ "مجالس عزاء” پر دینا بھی بڑے مسائل میں شامل ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ شیعی مدارس رُو بہ زوال ہیں۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، دائرہ امتحانات لاہور اور مدارس کے مہتمم، ان مسائل سے مسلسل آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ ملک میں جہاں دیگر مسالک کے مدارس میں جدت آرہی اور طلباء میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں شیعی مذہبی مدارس تنزلی کا شکار ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ متعدد مدارس بند ہوچکے ہیں، کئی ایک کی عمارتیں بھی بیچی جا چکی ہیں۔ یہ سنجیدہ مسائل ہیں، لیکن ان پر بات کرنا منع ہے۔ ملک میں کبھی ان مدارس کے مسائل پر کانفرنس، سیمینار یا میٹنگ نہیں ہوئی۔ ہر طرف خاموشی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی رہنماء مل کر بیٹھیں اور ان مسائل کا حل نکالیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.