5 جون، ایک تاریخی موڑ
مام خمینی (رہ) نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے فرمایا تھا: "5 جون کی یادوں کو محو نہیں کیا جاسکتا اور اسکو ہر سال پہلے سے زیادہ اہمیت کیساتھ یاد رکھنا چاہیئے۔ پندرہویں خرداد جو محرم کی بارہویں تاریخ تھی، اس لئے بھی یادگار ہے کہ عاشورہ امام حسین کے تناظر میں یہ قیام تلوار پر خون کی فتح کا قیام تھا۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد اس دن یعنی 5 جون کو نہایت اہمیت دی جاتی ہے اور اس دن ایران کے سرکاری کیلنڈر میں سرکاری تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے اور ہر سال اس موقع پر ملک بھر میں مختلف تقاریب منعقد کی جاتی ہیں
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
پندرہ خرداد مطابق پانچ جون، ایران کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ایران کے مقدس شہر قم میں واقع مدرسۂ فیضیہ میں، 59 سال قبل اسی دن، عاشور کی تقریر میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے شاہی حکومت کی اسلام مخالف پالیسیوں اور صیہونی حکومت کے ساتھ اس کے روابط اور سازشوں کا پردہ فاش کیا تھا۔ اس تقریر کے بعد ستم شاہی حکومت کے کارندوں نے آپ کو گرفتار کر لیا تھا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی گرفتاری کے بعد ایران کے مختلف شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور پورے ایران میں عوام کے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ شاہی حکومت کے جاسوسوں نے حکومت مخالف مظاہروں کو کچلنے کے مقصد سے مدرسہ فیضیہ پر حملہ کرکے بڑی تعداد میں طلبہ کو شہید اور زخمی کر دیا اور ایک بڑی تعداد کو گرفتار کرلیا۔ یہی وہ دن تھا کہ جب شاہ کی حکومت کے سقوط کی شروعات اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی بنیاد رکھی گئی۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے انیس سو ترسٹھ میں شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف اپنی تحریک اور جدوجہد کو اہم مرحلے میں پہنچا دیا اور ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک بیرون ملک جلا وطنی سمیت بہت زیادہ سختیوں کو برداشت کیا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے فرمان پر پندرہ خرداد مطابق پانچ جون کو ایران میں یوم سوگ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 5 جون 1342 شمسی کو طلوع فجر کے وقت ظالم سامراجی شاہی حکومت کی افواج نے "امام خمینی” کے گھر پر چھاپہ مارا۔ انہوں نے امام کو گرفتار کیا۔ امام خمینی نے تین روز قبل فیضیہ دینی مدرسہ میں روز عاشورہ کے موقع پر اپنی تقریر میں شاہ اور اس کے امریکی اور صہیونی آقاؤں کے جرائم کو بے نقاب کیا تھا۔ آپ کو گرفتار کیا گیا اور لوگوں کی نظروں سے دور تہران کی ایک جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ واقعے کے چند گھنٹوں کے بعد قم کی سڑکیں انقلابی مردوں اور عورتوں سے بھر گئیں، جنہوں نے شاہ کی حکومت کے خلاف اور اپنے رہنماء کی حمایت میں زبردست نعرے لگائے۔
اس دن تہران اور کئی دوسرے شہروں میں بھی لوگوں نے احتجاج کیا اور ظالم سامراجی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ اس دن بھی اور دو دن کے بعد بھی مظاہرے جاری رہے اور قم، تہران اور ورامین سمیت بعض شہروں میں تشدد پھوٹ پڑا، جس سے بہت سے لوگ شہید اور زخمی ہوئے۔ اس واقعہ نے درحقیقت سامراجی حکومت کے قتل اور تشدد کے خلاف اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھ دی۔ اس واقعہ نے شاہی حکومت کے خاتمے کی پہلی چنگاریوں کو ہوا دے دی۔ پندرہویں خرداد کے استحکام کا راز یہ ہے کہ اسے ایران میں بہت سی پیش رفتوں کا نقطہ آغاز اور اسلامی تبدیلی کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ 5 جون کی اس بغاوت کے مقاصد کی اگر جانچ پڑتال کی جائے تو اس میں کئی مسائل کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ ان میں سے ایک ایران میں اسلامی قوانین کا نفاذ بھی شامل ہے، جس کی پشتپناہ مذہبی قوتیں تھیں۔
علماء بالحصوص امام خمینی (رہ) نے نوآبادیاتی منصوبوں کا مقابلہ کرنے اور خود مختاری اور مغربی ثقافت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔ ادھر شاہ کی حکومت نے کھلم کھلا خدائی حدود سے تجاوز کیا اور اسلام کے قوانین کو نافذ کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ امام کا دوسرا مقصد عالمی صہیونیت اور ان کے اندرونی عوامل کے خلاف لڑنا اور اسلام اور قرآن کے احکامات اور ملک کی آزادی کی حفاظت کرنا تھا۔ اس قیام میں امام خمینی کا بنیادی ہدف اسلامی قانون کی حکمرانی اور اسلامی قانون کا نفاذ تھا اور ملک کو عالمی استکبار سے آزاد کرانا اور بادشاہت کا خاتمہ تھا۔ امام خمینی اسلامی حکومت کے قیام کو اس کا متبادل قرار دیتے تھے۔
5 جون کے قیام کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ عوامی اور اسلامی قیام تھا اور اس کی ایک ہی قیادت تھی۔ اس سے پہلے ایران میں کئی بغاوتیں اور تحریکیں شروح ہوئیں، لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی مذکورہ بالا تین عناصر ایک ہی وقت میں موجود نہیں تھے۔ ایرانی تاریخ کے ماہرین کے مطابق 6 جون 1963ء کا قیام وہ واحد قیام تھا، جس میں سب سے مقبول پہلو اسلامی پہلو تھا اور اس کی قیادت ایک ہی لیڈر کے پاس تھی اور اس کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس قیام کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ 5 جون کی بغاوت میں غیر ملکی ملوث ہیں، لیکن ان سازشوں کو ایرانی عوام کی چوکسی اور امام خمینی کے عزم و ارادہ اور الہیٰ قیادت نے ناکام بنا دیا۔ 5 جون کے قیام اور اس کے خلاف شاہی حکومت کے بدترین تشدد نے پہلوی بادشاہت کی مخالفت کا رخ بدل دیا اور اس کے بعد جدوجہد کی نوعیت سیاسی نقطہ نظر سے بدل کر مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوگئی۔
درحقیقت اس بغاوت کو دبانے کے شاہی ہتھکنڈے سے اپوزیشن قوتیں اس نتیجے پر پہنچیں کہ پہلوی بادشاہت کی مخالفت صرف سیاسی راستے سے ممکن نہیں۔ یہ قیام اسلامی انجمنوں کی تشکیل کا باعث بنا اور 5 جون کے قیام کے اگلے دن، تجار، طلباء اور دیگر شعبہ ہائ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد نے وسیع تنظیمی نیٹ روک قائم کرنا شروع کر دیئے اور ملک کے مختلف حصوں میں مذہب اور سیاست کے نام پر اجتماعی کام میں سرعت آگئی۔ دریں اثناء پہلوی حکومت کی مخالفت کی قیادت بائیں بازو اور قوم پرست قوتوں کے ہاتھوں سے نکل کر اسلام پسندوں کے پاس آگئی۔ 5 جون کے قیام سے پہلے بھی ایرانی معاشرے میں شیعہ علماء اور ان کی پیروی کرنے والوں کا نمایاں اثر و نفوز تھا، لیکن 6 جون کے قیام کے بعد لوگوں میں مرجع تقلید کی طرف توجہ بڑھی اور مذہبی طبقے کا معاشرے میں اثر و رسوخ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔
آخر میں یہ واضح رہے کہ 5 جون کا قیام، جو لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی اور مرحوم امام اور مذہبی طبقہ کی قیادت کے باوجود ظاہری طور پر دبا دیا گیا، لیکن اس کے اثرات اور اس کی چھاپ اتنی واضح تھی کہ یہ قیام ایران میں 2500 سالہ شاہی نظام کے خاتمہ کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قیام کو اسلامی انقلاب کی ابتداء اور وسیع ملکی اور بین الاقوامی تبدیلیوں کا سرچشمہ جانا جاتا ہے۔ امام خمینی (رہ) نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے فرمایا تھا: "5 جون کی یادوں کو محو نہیں کیا جاسکتا اور اس کو ہر سال پہلے سے زیادہ اہمیت کے ساتھ یاد رکھنا چاہیئے۔ پندرہویں خرداد جو محرم کی بارہویں تاریخ تھی، اس لئے بھی یادگار ہے کہ عاشورہ امام حسین کے تناظر میں یہ قیام تلوار پر خون کی فتح کا قیام تھا۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد اس دن یعنی 5 جون کو نہایت اہمیت دی جاتی ہے اور اس دن ایران کے سرکاری کیلنڈر میں سرکاری تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے اور ہر سال اس موقع پر ملک بھر میں مختلف تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔