سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ طور پر پہلا معاہدہ طے پانے کے امکانات
اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل بحیرہ احمر میں دو جزائر کی بین الاقوامی حیثیت کو تبدیل کرنے کی سعودی اپیل پر غور کر رہا ہے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ طور پر پہلا معاہدہ طے ہونے کے امکانات ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل بحیرہ احمر میں دو جزائر کی بین الاقوامی حیثیت کو تبدیل کرنے کی سعودی اپیل پر غور کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب پہلے سے ہی ریاض اور یروشیلم کی جانب سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے چھوٹے چھوٹے اقدامات اُٹھائےجانے کی خبریں بین الاقوامی میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، امریکا سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان اس معاہدے کو طے کروانے کی کوشش کر رہا ہے، امریکا کی توجہ بحیرہ احمر(Red Sea) میں واقع تیران اور صنافیر جزائر کی خود مختاری مصر سے سعودی عرب کو منتقل کرنے پر مرکوز ہے۔ اس حوالے سے مصری پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ نے ان جزائر کو ریاض منتقل کرنے کی منظوری دے دی، لیکن 1979ء کے اسرائیل مصر امن معاہدے کی وجہ سے، جزائر کی خود مختاری کی منتقلی کے عمل کو پورا کرنے کے لیے اسرائیل کی منظوری بھی ضروری ہے۔ رپورٹ کے مطابق، امریکی صدر جو بائیڈن اپنے مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران اگلے ماہ سعودی عرب کا دورہ کرنے اور اسرائیل میں رکنے پر غور کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو امریکی صدر کے اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری آنے کی امید ہے۔ ذرائع کے مطابق، اسرائیل فلسطین تنازع میں سعودی عرب کے فلسطین کی حمایت میں کھڑے ہونے کی وجہ سے ممالک کے درمیان تعلقات کو باقاعدہ طور پر معمول پر لانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ یوکرین میں جنگ کے باعث پیدا ہونے والے توانائی کے عالمی بحران کے بعد اب امریکی صدر جو بائیڈن سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنے اور تیل کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو معاف کرنے کے لیے تیار ہیں۔