سپریم کورٹ کا الیکشن کی تاریخ دینے سے قبل صدر سے مشاورت نہ کرنے پر اظہار برہمی

0 93

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 90 روز میں انتخابات کیس کی سماعت کے دوران کیا،دوران سماعت، پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ انتخابات 90 روز میں کروائے جائیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے، جس پر وکیل علی ظفر نے صدر کا خط پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی 9اگست کو تحلیل ہوئی اس ہر تو کسی کا اعتراض نہیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ جی کسی کا اعتراض نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت کو الیکشن کمیشن کو خط لکھنے میں اتنا وقت کیوں لگا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا صدر مملکت نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کیلئے ہم سے رجوع کیا، جس پر وکیل نے بتایا کہ نہیں ایسا نہیں ہے

چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیے کہ پھر آپ خط ہمارے سامنے کیسے پڑھ رہے ہیں، صدر کے خط کا متن بھی کافی مبہم ہے، صدر نے جب خود ایسا نہیں کیا تو وہ کسی اور کو یہ مشورہ کیسے دے سکتے ہیں، علی ظفر کیا آپ کہہ رہے ہیں صدر نے اپنا آئینی فریضہ ادا نہیں کہا، 9 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوئی اور صدر نے ستمبر میں خط لکھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے صدر نے تاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق تاریخ دینا صدر کا اختیار ہے، پھر آپ بتائیں کہ کیا اس عدالت کو بھی تاریخ دینے کا اختیار ہے۔ اگر صدر نے بات نہ مانی تو ہم انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے ۔

الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ سیکشن 57 میں ترمیم کے بعد تاریخ دینا ان کا اختیار ہے، آپ نے یہ ترمیم چیلنج کیوں نہیں کی؟ علی ظفر نے کہا کہ مجھے یہ چیلنج کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں سیکشن 57 کو آرٹیکل 58 کے ساتھ ہی پڑھا جائے گا، پھر الیکشن کمیشن ٹھیک کہہ رہا ہے کے صدر سے مشاورت کی ضرورت نہیں وہ تاریخ دے دیں، صدر کو تاریخ دے دینی چاہیے پھر الیکشن کمیشن جو بھی کہتا رہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ جو دلائل دے رہے ہیں اس سے تو صدر مملکت پر آرٹیکل 6لگ جائے گا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.