عمرسرفراز چیمہ نے10 مئی 2022 کا نوٹیفکیشن اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ معزول گورنرپنجاب عمر سرفراز چیمہ نے وکیل بابراعوان کےذریعے درخواست دائرکی تاہم عمرسرفرازکی بطورگورنرعہدےسےبرطرفی کیخلاف درخواست پراعتراض عائد کردیا گیا۔
ڈائری برانچ کےاسسٹنٹ رجسٹرارنےسابق گورنرکی درخواست پراعتراض عائدکیا۔ رجسٹرارآفس نے اعتراض کیا ہے یہ معاملہ پنجاب کا ہے اور اس عدالت کادائرہ کارنہیں بنتا۔ درخواست میں بنائے2فریقین کےخلاف درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔
رجسٹرارآفس نے اسپیکرپنجاب اسمبلی اورصدرکوفریق بنانےپراعتراض کیا ہے۔
عمرسرفرازچیمہ نےعدالت سے استدعا کی کہ 10مئی کے وفاق کے نوٹیفیکیشن کو غیرقانونی وغیرآئینی قرار دیا جائےاور بطور گورنر برطرفی کا آرڈر کالعدم قرار دیا جائے۔ پنجاب میں ایک شخص جو اختیارات استعمال کررہا ہے وہ غیرقانونی ہے۔
درخواست گزار عمرسرفرازچیمہ نے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم شہبازشریف نےاپنے بیٹے کو فائدہ دینےکیلئےغیرقانونی عہدے سے ہٹایا اور کابینہ ڈویژن نوٹیفکیشن جاری کروانے والوں کےخلاف بھی کارروائی کرے۔ عدالت میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ آئین کے مطابق گورنر صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہے اور گورنر پنجاب ایگزیکٹو کا حصہ نہیں ہوتا، صدر کی خوشنودی پر گورنر عہدے پر قائم رہ سکتا ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ برطرفی کا نوٹیفکیشن بلا اختیار اور ماورائے آئین ہے،سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق صدر کےاختیارات کو رولز کے تحت ختم نہیں کیا جاسکتا۔درخواست گزار نے کہا ہے کہ پنجاب میں آئینی بحران پیدا کردیا گیا ہے۔
اسلام آبادہائی کورٹ کے باہر وکیل بابر اعوان نے صحافیوں سے بات کرتےہوئے کہا کہ جب سے امپورٹڈ وزیراعظم آیا ہے،اس نے بیٹے کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہر کام کیا اور پنجاب اسمبلی میں پولیس بلائی گئی جبکہ مخالف امیدوار کو اٹھا کر باہر پھینکا گیا۔
انھوں نے کہا کہ اسپیکرپنجاب اسمبلی کی جگہ وہاں نتائج کا اعلان ایک مائیک والا کر رہا تھا اور ان حالات میں عمر سرفراز چیمہ نے ایک اسٹینڈ لیا ہوا تھا۔
بابراعوان نے کہا کہ عمرچیمہ کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن آئین کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور گورنر صدر کی خوشنودی کے مطابق کام کرسکتا ہے۔
بابراعوان نے مزید کہا کہ عمر چیمہ سے متعلق صدر نے لکھ کرکہا کہ ان کا کوئی مس کنڈکٹ نہیں اور نہ کوئی آئین کی خلاف ورزی ہے۔