منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ

کورٹ کے لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سنادیا، منحرف اراکین تاحیات نااہلی سے بچ گئے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں کیا جاسکتا، تاہم ان کی نااہلی سے متعلق قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے، وقت آگیا ہے کہ منحرف ارکان کے حوالے سے قانون سازی کی جائے۔

0 140

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سنادیا، 5 رکنی بینچ نے 2-3۔ کی اکثریت سے رائے دیدی، جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کو الگ سے نہیں پڑھا جاسکتا، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کے حقوق کی بھی بات کرتا ہے، سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کی بنیاد ہیں، انحراف جماعتوں کو غیرمستحکم، پارلیمانی جمہوریت کو ڈی ریل کرسکتا ہے۔

عدالت نے فیصلہ دیا کہ آرٹیکل 63 اے کو الگ سے نہیں دیکھا جاسکتا، منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، تاہم ان کی نااہلی سے متعلق قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے، وقت آگیا ہے کہ منحرف ارکان کے حوالے سے قانون سازی کی جائے۔

عدالت عظمیٰ نے مستقبل میں اراکین اسمبلی کی جانب سے پارٹی سے انحراف روکنے کا سوال صدر مملکت کو واپس بھجوادیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا براہ راست اثر پنجاب پر پڑے گا جہاں پاکستان تحریک انصاف کے 20 سے زائد ارکان نے پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کیلئے ووٹ دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف نے پریس کانفرنس منسوخ کردی، ساتھ ہی پنجاب میں آئینی بحران کے پیش نظر مشاورت کیلئے قانونی ٹیم کو بھی طلب کرلیا۔

گورنر پنجاب کی جانب سے عثمان بزدار کا استعفیٰ نا منظور کئے جانے اور عدالتی فیصلے کے بعد وہ دوبارہ وزیراعلیٰ کا منصب سنبھال سکتے ہیں، حمزہ شہباز نے 10 مئی کو وزارت اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

ماہر قانون اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالتی فیصلے کو مناسب قرار دیدیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے جو رائے دی وہی میری رائے ہے۔

آج دن کی عدالتی کارروائی

اس سے قبل چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت میں دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سماعت کے دوران (ن) لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے گزارشات جمع کرادیں جب کہ تحریری دلائل میں عدالت سے مہلت مانگ لی۔

مخدوم علی خان کی جانب سے استدعا کی گئی کہ حالات تبدیل ہو گئے ہیں،حالات کی تبدیلی کے بعد مجھے موکل سے نئی ہدایات لینے کے لیے وقت دیا جائے۔

عدالت عظمیٰ کے روبرو اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف سوشل میڈیا کی شکایت کر دی، انہوں نے کہا کہ عدم حاضری پر سوشل میڈیا پر میرے خلاف باتیں ہوئیں۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطابندیال نے انہیں مشورہ دیا کہ سوشل میڈیا نہ دیکھا کریں۔

اپنے دلائل میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ تکنيکی نہیں آئینی معاملہ ہے، ریفرنس سابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر فائل ہوا، سابق وزیر اعظم نے اپنے پہلے مؤقف سے قلا بازی کھائی، عدم اعتماد کی تحریک کے وقت بھی وہی وزیر اعظم تھے۔ صدر مملکت کو قانونی ماہرین سے رائے لے کر ریفرنس فائل کرنا چاہیے تھا، قانونی ماہرین کی رائے مختلف ہوتی تو صدر مملکت ریفرنس بھیج سکتے تھے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں ریفرنس ناقابل سماعت ہے؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ریفرنس کو جواب کے بغیر واپس کردیا جائے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یہ حکومت کا مؤقف ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا مؤقف بطور اٹارنی جنرل ہے، سابقہ حکومت کا مؤقف پیش کرنےکے لئے ان کے وکلاء موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈیرھ ماہ سے صدارتی ریفرنس کو سن رہے ہیں، قابل سماعت ہونے سے معاملہ کافی آگے نکل چکا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی آبزرویشنز سے اتفاق نہیں کرتا لیکن سر تسلیم خم کرتا ہوں۔

اشتر اوصاف نے کہا کہ آرٹیکل 62، 63 اور تریسٹھ اے میں ترمیم پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے، عدالت آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی۔ قانون بنایا جاسکتا ہے لیکن پارلیمنٹ نے قانون نہیں بنایا, جب تک آئین میں ترمیم نہیں کرتے آپ آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق نہیں کرسکتے، اگر قانون میں جرم کی سزا سات سال سزا ہے تو سزائے موت نہیں دی جاسکتی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.