بشار اسد تہران میں
دہشتگردی کیخلاف جنگ میں کامیابی نے، جیسا کہ رہبر معظم انقلاب نے فرمایا ہے، شام کو ایک نیا اعتبار بخشا ہے۔ شام آج بھی مزاحمت کا مرکز ہے اور بشار الاسد نے کل کی ملاقاتوں میں مزاحمت کے اصولوں اور بنیادوں سے وابستگی پر زور دیا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کیطرف اشارہ کرتی ہے کہ شام مغربی ایشیائی خطے میں ہونیوالی پیشرفت میں اہم کردار ادا کرتا رہیگا، چاہے اسے دہشتگردی کیخلاف جنگ کے نتیجے میں مختلف مسائل کا ہی کیوں نہ سامنا کرنا پڑے۔ بشار اسد نے گذشتہ روز کی ملاقات میں ایک اہم نکتے کیطرف اشارہ کیا ہے، انکا کہنا تھا کہ جنگ کی تباہ کاریوں کو دوبارہ صحیح کیا جا سکتا ہے اور تعمیر نو کے ذریعے ملک کو سنوارہ جاسکتا ہے، لیکن اگر اصولوں کو تباہ کر دیا جائے تو اسکی تعمیر نو نہیں ہوسکتی۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
شام کے صدر بشار الاسد نے گذشتہ روز تہران کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای اور ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی۔ تہران میں شام کے صدر بشار اسد اور ان کے ہمراہ وفد سے بات چیت کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ شام اپنے عوام اور حکومت کی استقامت کے نتیجے میں ایک بین الاقوامی جنگ میں کامیاب رہا ہے، جس سے اس کے وقار اور سربلندی میں اصافہ ہوا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے صیہونی مخالف عوامی جذبات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج خطے کے بعض ممالک صیہونی حکام کے ساتھ میل جول کر رہے ہیں، لیکن انہی ملکوں کے عوام یوم القدس کے موقع پر صیہونیت مخالف نعرے لگاتے ہیں اور یہ ایک علاقائی حقیقت ہے۔ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایران اور شام کے درمیان تعلقات کے زیادہ سے زیادہ فروغ پر بھی زور دیا۔
شام کے صدر بشار اسد نے اس موقع پر کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایرانی حکومت اور عوام کی حمایت کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ انہون نے شہید قاسم سلیمانی کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چالیس سال کے دوران علاقائی مسائل اور خاص طور پر مسئلہ فلسطین کے بارے میں ایران کی استقامت اور پائیداری کے نتیجے میں علاقے کے عوام سمجھنے لگے ہیں کہ ایران ٹھوس اور اصولی راستے پر گامزن ہے۔ شام کے صدر نے کہا کہ دنیا سمجھتی ہے کہ ایران استقامتی محاذ کو اسلحہ جاتی امداد فراہم کرتا رہا ہے، حالانکہ ایران کی اہم ترین امداد، خطے میں استقامت کی پائیدار روح کو پروان چڑھانا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور شام کے اسٹریٹیجک تعلقات کی بدولت، اسرائیل خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے میں ناکام ہے۔
شام ان عرب ممالک میں سے ایک ہے، جس کے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ ہمیشہ قریبی اسٹریٹیجک تعلقات رہے ہیں۔ شام مزاحمت کے بلاک کا سب سے اہم عرب رکن ہے اور وہ اپنی خارجہ پالیسی کو مزاحمت کے بلاک کے اصولوں کے ساتھ چلاتا ہے۔ اسی وجہ سے شام کے خلاف سازشیں جاری رہتی ہیں اور ماضی میں بھی اس پر مختلف قسم کا دباؤ بڑھایا جاتا رہا ہے۔ اس دباؤ کا عروج 2011ء میں تھا، جب شام کو دہشت گردی کی جنگ کا سامنا تھا، جس میں اسی 80 سے زیادہ مملک سے دہشت گرد شام میں بھیجے گئے۔ ان دہشت گرد گروہوں کو عرب اور مغربی طاقتوں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ شام کو دہشت گردی کی اس جنگ کا سامنا کرنے اور شامی اپوزیشن کی جانب سے اس کا تختہ الٹنے کی کوششوں کے بعد، اسلامی جمہوریہ ایران وہ اہم ترین ملک تھا، جس نے عملی طور پر دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے خلاف دمشق حکومت کی کھل کر حمایت کی۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے علاوہ، استقامتی بلاک اور اس کے اتحادیوں نے شامی حکومت کے دفاع اور دہشت گردی کے خلاف عملی کارروائی میں شرکت کی اور وہ مسلسل شام کے میدان جنگ میں موجود رہے۔ بلاشبہ اسلامی جمہوریہ ایران اور مزاحمتی گروہوں کی حمایت نے شام کی ارضی سالمیت کے تحفظ اور اس ملک میں دہشت گرد گروہوں کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ روز بشار الاسد سے ملاقات میں اس سلسلے میں شہید قاسم سلیمانی کے اہم کردار کا حصوصی طور پر ذکر کیا۔ گذشتہ روز بشار الاسد کی ملاقات کے دوران واضح نکتہ یہ تھا کہ فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تزویراتی نوعیت کا اعتراف کیا اور ساتھ ہی ساتھ مختلف شعبوں میں ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیا۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ شام دہشت گردی کے بعد کے دور سے گزر رہا ہے، مختلف ممالک نے شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے کردار کو دیکھتے ہوئے، ملک کے اقتصادی منظر نامے میں شرکت کے لیے اپنی تیاریوں کا اعلان کیا ہے۔ اس صورت حال میں اسلامی جمہوریہ ایران، شام کی تعمیر نو اور اقتصادی میدان میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ دونوں طرف سے تعلقات کو وسعت دینے کی خواہش بالخصوص بشار الاسد کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ بشار اسد ایران شام باہمی تعلقات کو بام عروج تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ کل کے دورے سے ظاہر ہوا کہ بشار الاسد اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے پر زور دیتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات کو اسٹریٹیجک سمجھتے ہیں۔
بشار الاسد کے کل کے دورے کے دوران ایک اور اہم نکتہ شامی صدر کا رہبر انقلاب اسلامی کے ساتھ ساتھ ایرانی صدر کے ساتھ ملنا تھا۔ شائع شدہ تصاویر میں بشار الاسد کو آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے پرتپاک استقبال کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ شام کے مسائل پر رہبر معظم انقلاب اسلامی کے تبصروں میں بشار الاسد کے کردار اور دہشت گردی کے خلاف شام کی فتح اور ملک کی ارضی سالمیت کے تحفظ میں ان کے کردار پر تاکید اس احترام اور مقام کو ظاہر کرتی ہے، جو کہ رہبر معظم کا بشار الاسد کے بارے میں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج شام کی صورت حال کا ایک دہائی پہلے والی صورت حال سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شام کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے اور اس ملک پر بھاری پابندیاں تک عائد کی گئی ہیں۔
لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی نے، جیسا کہ رہبر معظم انقلاب نے فرمایا ہے شام کو ایک نیا اعتبار بخشا ہے۔ شام آج بھی مزاحمت کا مرکز ہے اور بشار الاسد نے کل کی ملاقاتوں میں مزاحمت کے اصولوں اور بنیادوں سے وابستگی پر زور دیا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ شام مغربی ایشیائی خطے میں ہونے والی پیشرفت میں اہم کردار ادا کرتا رہے گا، چاہے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں مختلف مسائل کا ہی کیوں نہ سامنا کرنا پڑے۔ بشار اسد نے گذشتہ روز کی ملاقات میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ جنگ کی تباہ کاریوں کو دوبارہ صحیح کیا جا سکتا ہے اور تعمیر نو کے ذریعے ملک کو سنوارہ جاسکتا ہے، لیکن اگر اصولوں کو تباہ کر دیا جائے تو اس کی تعمیر نو نہیں ہوسکتی۔