جناح انمول ہے اسے کوئی نہیں خرید سکتا

فداشیرازی

0 350

کیا کہا تم نے ؟ جناح انگریزوں کا زرخرید ہے ؟ تم بِک سکتے ہو۔ میں بھی خریدی جا سکتی ہوں۔ باپو گاندھی اور جواہر لال نہرو کا سودا بھی ہو سکتا ہے ، مگر جناح انمول ہے اسے کوئی نہیں خرید سکتابےشک ہمارے نقطہِ نظر سے وہ غلط راستے پر گامزن ہیں لیکن اُن کی دیانتِ فکر ہر طرح کے شک و شبے سے بالاتر ہے، جناح ایک شرمیلے ااور بااصول شخص ہیں، برطانوی راج کے کٹر دشمن ہیں۔یہ میرے نہیں بلکہ کانگریسی رہنما بلبل ہند مسز سروجنی نائیڈوکےکانگریس کے جلسہ کے دوران ایک کانگریسی مسلمان سیاستدان کے قائداعظمؒ کو انگریزوں کا زرخرید کہنے پراد کیے گئے جملے ہیں۔
دنیا میں قیادت کا اہل اُسے مانا جاتا ہے جو ملک و قوم اور سلطنت کے ساتھ مخلص ہومن کا سچاہواور بات بھی ہمیشہ منطقی انداز میں کرے قائد اعظم کے اپنی قوم کے ساتھ اخلاص کو دشمن نے بھی تسلیم کیا وقت نے جیسے جیسے اپنی طنابیں کھینچیں قائداعظمؒ کے افکار اورنظریات مزید نکھر کرسامنے آئے کیونکہ وہ اپنی زندگی اُصولوں کے تحت گزار رہے تھے اوردشمن کسی بھی میدان میں اُنہیں مات نہیں دے سکا تومعروف قانونی ماہر ایم سی چاگلا بھی کہنے پر مجبور ہوئے تھے کہ جناحؒ بمبئی کے بے تاج بادشاہ ہیں جناحؒ کی سب سے بڑی خوبی مستقل مزاجی تھی اگر ایک بار وہ ارادہ کرلیتے تو پھر دنیا کی کوئی قوت بھی انہیں مقصد کی راہ سے ہٹا نہیں سکتی تھی کوئی ترغیب رشوت دباؤ ان پر اثر انداز نہیں ہوتا تھا ان کی عظمت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ کانگریس اور انگریز کی مخالفت کے باوجود انہوں نے نیا ملک پاکستان بنا دیا۔اس لیے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان بننے کے فوراً بعد کہا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی اور ختم بھی کیسے کرسکتی جس ملک کا بانی اتنا اُصول پسند کہ قائد اعظمؒ جب بیمار تھے تو ایک خاتون ڈاکٹر ان کی خدمت پر مامور تھیں۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے میری بہت خدمت کی ہے بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں، تو اس نے کہا کہ میری ٹرانسفر میرے آبائی شہر میں کروا دیں تو آپ نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں یہ وزارتِ صحت کا کام ہے۔
علامہ اقبال ؒنے کہا تھاکہ
نگہ بلند ، سخن دلنواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت ِسفر میر کارواں کے لئے
علامہ اقبالؒ کے اس شعر کے مصداق اُنہوں نے ہمیشہ اپنی نگاہ بھی بلند رکھی اور قوم کی نگاہ کو بھی جھکنے نہیں دیاابوالحسن اصفہانی لکھتے ہیں کہ قائداعظمؒ کی عادت تھی کہ کمرے سے باہر نکلتے وقت تمام لائٹ بند کر دیا کرتے تھے،میں آخری بار ان سے 31اگست 1947 گورنر ہاؤس میں ملا تھا۔ہم کمرے سے نکلے تو مجھے سیڑھیوں تک چھوڑنے آئے اور کمرے سے نکلتے وقت حسب عادت تمام لائٹس کے بٹن بند کرتے آ رہے تھے میں نے کہا سر آپ گورنر ہیں اور یہ سرکاری رہائش گاہ ہے اس میں لائٹ جلتی رہنا چاہئیے، تو قائد نے جواب دیا کہ سرکاری رہائش گاہ ہے اسی لئے تو میں ایسا کر رہا ہوں یہ نہ تمہارا پیسہ ہے اور نہ میرا یہ سرکاری خزانہ کا پیسہ ہے اور میں اس پیسہ کا امین ہوں۔اسی حوالے سے مجھے امیرالمومنین علی ؑ ابنِ ابی طالبؑ کے وہ واقعہ یاد آرہا ہے جب بیت المال میں چند ملاقاتی آئے، علیؑ نے پوچھا کہ کوئی بیت المال سے متعلق کام ہے یا ذاتی نوعیت کی ملاقات؟ جواب ملا کہ آپؑ سے ملاقات درکار ہے۔ امام علیؑ نے ایک چراغ بُجھا کر، دوسرا جلا لیا؛ کہنے لگے کہ بیت المال کے چراغ کا استعمال درست نھیں، میں نے اپنا ذاتی چراغ جلایا ہے، اب بولیے۔ ۔ ۔ملاقاتی سوچنے لگے کہ جو شخص بیت المال کے چراغ کا استعمال اتنی احتیاط سے کرتا ہے، وہ حکومتی عہدوں کی بانٹ میں کتنا محتاط ہوگا ملاقاتی کسی خواہش کا اظہار کیے بنا، چل دیئے۔
بقول مرزا غالب
صادق ہوں اپنے قول کا غالبؔ خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
قائداعظم محمد علی جناحؒ محض علامتی نہیں بلکہ حقیقی معانی میں اصول پسند ، ایماندار اورسچے لیڈر تھے ان کاملت کیلئے اُٹھایا گیا ہر قدم قابل تقلید ہےاگر پوری قوم اُن کے افکار سے سبق سیکھتی تو آج دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم مانی جاتی ۔قائداعظمؒ وقت کی قدر اور اہمیت کو سمجھتے اور اس پر عمل پیرا بھی ہوتے تھے مثلاًوفات سے کچھ عرصے قبل بابائے قوم نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا یہ وہ آخری سرکاری تقریب تھی جس میں قائداعظم اپنی علالت کے باوجود شریک ہوئے وہ ٹھیک وقت پر تقریب میں تشریف لائے انہوں نے دیکھا کہ شرکاء کی اگلی نشست ابھی تک خالی ہیں انہوں نے تقریب کے منتظمین کو پروگرام شروع کرنے کا کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ خالی نشستیں ہٹا دی جائیں حکم کی تعمیل ہوئی اور بعد کے آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا ان میں کئی دوسرے وزراء سرکاری افسر کے ساتھ اس وقت کے وزیرا عظم خان لیاقت علی خان بھی شامل تھے وہ بے حد شرمندہ تھے کہ ان کی ذراسی غلطی قائد اعظم نے برداشت نہیں کی اور ایسی سزا دی جو کبھی نہ بھولی گئی ۔
بقول راقم الحروف
قائدِ اعظم تری ہر اک بصیرت کو سلام
تیرے ہر اک قول کی تفسیر ہے چودہ اگست

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.