اسٹوریج کی کمی سے سبزیوں کی فصل ضائع ہونے لگی

0 16

اسٹوریج کی کمی سے سبزیوں کی فصل ضائع ہونے لگی، سبزیوں کی کاشت میں 15 سے 64 فیصد تک اضافے سے قیمتیں 52 فیصد تک گر گئیں۔

زرعی پیداوار میں اضافہ عموماً کسی بھی زرعی معیشت کے لیے خوش آئند تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم، جب جدید ذخیرہ، پراسیسنگ اور پیکیجنگ کی سہولیات میسر نہ ہوں تو فصلوں کی زیادتی کسانوں کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔ نتیجتاً یا تو کسانوں کو اپنی پیداوار انتہائی کم قیمت پر فروخت کرنا پڑتی ہے یا پھر سبزیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔

پنجاب میں گزشتہ برس گندم کی کاشت سے بھاری نقصان اٹھانے کے بعد بڑی تعداد میں کسانوں نے موسمی سبزیوں کی طرف رجوع کیا جن میں مٹر، آلو، گوبھی، پیاز، ٹماٹر، لہسن، گاجر اور مولی شامل ہیں۔ تاہم مقامی طلب میں کمی، برآمدات میں کمی اور پیداوار میں اضافے کی وجہ سے سبزیوں کی قیمتیں گزشتہ پانچ برسوں کی کم ترین سطح پر پہنچ گئیں، جس سے کسانوں کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

بھسین کے رہائشی کسان علی حمزہ نے گزشتہ سال 10 ایکڑ پر گندم کاشت کی اور نقصان اٹھایا۔ اس سال انہوں نے 5 ایکڑ پر مٹر، شلجم، گاجر، مولی اور ساگ جیسی سبزیاں اگائیں، مگر اس بار بھی قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’صرف گوبھی اور گاجر کی فصل میں مجھے 3 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ گوبھی تو میں نے مارکیٹ میں بیچنے کے بجائے جانوروں کے لیے چارہ بنا دیا۔‘‘

اسی طرح سبزی منڈی کے ایک آڑھتی میاں افضل نے بتایا کہ کسانوں کے ساتھ ساتھ بیج، کھاد یا قرض دینے والے آڑھتی بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ’’کسان فصل کی کٹائی کے بعد ادھار چکاتے ہیں، لیکن اب تو انہیں فصل کاٹنے اور مارکیٹ پہنچانے کے اخراجات بھی نہیں مل رہے، وہ قرض کیسے واپس کریں گے؟‘‘

پنجاب ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ (ایکسٹینشن) کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر انجم علی بٹر کے مطابق ’’اس بار سبزیوں کی کاشت معمول سے پہلے شروع ہوگئی تھی اور موسم سازگار رہا، جس سے پیداوار میں اضافہ ہوا۔ مزید برآں، اس سال آلو اور بند گوبھی جیسی سبزیاں افغانستان برآمد نہ ہو سکیں، جس سے مقامی منڈی میں سپلائی بڑھ گئی اور قیمتیں گر گئیں۔‘‘

ایوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد کے سینیئر سائنسدان عامر لطیف نے بھی تصدیق کی کہ سبزیوں کی زیادہ فراہمی نے قیمتوں میں کمی کا سبب بنی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’گزشتہ سال گندم کے کسانوں کو مناسب قیمت نہیں ملی، اس لیے اس سال انہوں نے متبادل فصلوں، خصوصاً سبزیوں کی کاشت کا رخ کیا۔‘‘

پنجاب ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، اس سال گندم کی کاشت 11.91 لاکھ ایکڑ کم ہوئی۔ ربیع سیزن میں چنے اور چارے کی کاشت میں بھی کمی دیکھی گئی۔ اس کے برعکس سبزیوں کی کاشت میں نمایاں اضافہ ہوا؛ مٹر کی کاشت 11.8 لاکھ ایکڑ (64 فیصد) جبکہ آلو کی کاشت 11.8 لاکھ ایکڑ (15 فیصد) تک بڑھی۔ پیاز کی کاشت بھی 10,800 ایکڑ (15 فیصد) بڑھ گئی۔

ترقی پسند کسان عامر حیات بھنڈارا نے نشاندہی کی کہ چونکہ سبزیاں جلد خراب ہونے والی اشیاء ہیں، اس لیے ان کی شیلف لائف کو بڑھانے کے لیے جدید پراسیسنگ، ذخیرہ اور کولڈ چین سہولیات کی اشد ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اگر یہ سہولیات ہوں تو کسانوں کو پیداوار فوری منڈی پہنچانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ دنیا بھر میں خشک سبزیاں عام ہیں کیونکہ وہ زیادہ عرصے تک تازہ رہتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ رجحان نہیں ہے۔‘‘

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.