سپریم کورٹ آف پاکستان میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کےد وران سپریم کورٹ بار نے تحریری معروفضات میں کہا ہے کہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ ملٹری ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کر رہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی بنچ میں شامل ہیں، جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بنچ کا حصہ ہیں ۔
سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں جمع کرا دی گئیں ۔
سپریم کورٹ بار کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریر معروضات میں کہا گیا کہ سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، آرمی ایکٹ کی شقوں کو مختلف عدالتی فیصلوں میں درست قرار دیا جاچکا ہے، آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
لاہور بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کا حوالہ دیا اور مؤقف اپنایا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ بتائیں سویلینز کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں، ہم پرانی کہانی کی طرف نہیں جائیں گے، مرکزی سوال یہ ہے کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔
ایڈووکیٹ حامد خان نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ مئی 1952 میں آیا، جب آرمی ایکٹ آیا اس وقت پاکستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ تھا، پاکستان میں پہلا آئین 1956 میں آیا، پہلے آئین میں بنیادی حقوق پہلی مرتبہ متعارف کرائے گئے، آرمی ایکٹ 1952 میں پہلی ترمیم 1967 میں ہوئی، تاشقند معاہدے کے بعد لاہور میں ایک سیاسی میٹنگ ہوئی۔، سازش پر پہلا مقدمہ 1951 میں راولپنڈی بنا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض جیسے لوگوں کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔
حامد خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ملزمان پر کیس چلانے کے لیے راولپنڈی سازش سپیشل ٹرائل ایکٹ 1951 متعارف کرایا گیا، راولپنڈی سازش کا مقصد ملک میں کمیونسٹ نظام نافذ کرنا تھا، ملزمان میں جنرل اکبر خان سمیت سویلینز شامل تھے، راولپنڈی سازش کا ملٹری نہیں بلکہ سپیشل ٹریبونل کے تحت ٹرائل کا فیصلہ ہوا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا 1951 میں آرمی ایکٹ موجود تھا جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ پاکستان میں 1911 کا ملٹری ایکٹ لاگو تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا سپیشل ٹریبونل صرف پنڈی سازش ٹرائل کے لیے بنایا گیا جس پر وکیل حامد خان نے بتایا کہ نقطہ یہ ہے کہ راولپنڈی سازش میں اعلیٰ سویلین و غیرسویلین افراد شامل تھے، راولپنڈی سازش کے ملزمان کا ٹرائل ملٹری نہیں سپیشل ٹریبونل میں ٹرائل ہوا۔
وکیل نے دلائل میں مزید بتایا کہ ملٹری کورٹ پہلی بار 1953 میں تشکیل دی گئی، لاہور میں 1953 میں ہنگامے پھوٹ پڑے تو شہر کی حد تک مارشل لاء لگایا گیا، ہنگاموں کے ملزمان کے ٹرائل کےلیے ملٹری کورٹس بنیں، مولانا عبدالستار نیازی اور مولانا مودودی جیسے لوگوں پر کیسز چلے۔
اس موقع پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ بعد میں انہیں معافیاں بھی مل گئی تھیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ان ساری باتوں کا ملٹری ٹرائل کے ساتھ کیا تعلق ہے، ملک میں کب مارشل لاء لگا، اس کا ملٹری کورٹ کیس سے کیا لنک ہے؟ آئین میں مارشل لاء کی کوئی اجازت نہیں۔
وکیل حامد خان نے بتایا کہ مارشل لاء کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیا جاتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے سے مارشل لاء کا راستہ بند ہوا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین میں مارشل لاء کا کوئی ذکر نہیں، مارشل لاء ماورائے آئین اقدام ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ایڈووکیٹ حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ دلائل میں مزید کتنا وقت لیں گے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں آج اپنے دلائل مکمل کر لوں گا جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کے دلائل مکمل کرنے کو سراہا جائے گا۔