اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں ملزمان کی حوالگی سے متعلق وکیل کے دلائل پر جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ مقدمات ملٹری کورٹ سے اے ٹی سی منتقل ہوں تو ٹرائل کہاں سے شروع ہوگا؟
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی جس دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے۔
عدالت میں دلائل دیتے ہوئے فیصل صدیقی نے کہا سوال یہ نہیں کہ 105ملزمان کو ملٹری ٹرائل کے لیے منتخب کیسے کیا، معاملہ یہ ہے کہ کیا قانون ملٹری ٹرائل کی اجازت دیتا ہے؟
جسٹس امین الدین نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی ریکارڈ کا معاملہ ہے، کیا آپ نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 94 کو چیلنج کیا ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا ملزمان کی حوالگی کے وقت جرم کا تعین نہیں ہوا تھا، سیکشن 94 کے لامحدود صوابدیدی اختیار کو بھی چیلنج کیا ہے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ کمانڈنگ افسر سیکشن 94 کے تحت حوالگی کی درخواست دیتا ہے، ملزمان کی ملٹری حوالگی کا فیصلہ کرنے والے افسر کے اختیارات لامحدود ہیں جب کہ پاکستان میں وزیر اعظم کا اختیار لامحدود نہیں ہے، ملزمان حوالگی کے اختیارات کا اسٹرکچر ہونا چاہیے۔
جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ کیا پولیس کی تفتیش آہستہ اور ملٹری کی تیز تھی؟ کیا ملزمان کی حوالگی کے وقت مواد موجود تھا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا مواد کا ریکارڈ پر ہونا نہ ہونا مسئلہ نہیں، ساری جڑ ملزمان حوالگی کا لامحدود اختیار ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا انسداد دہشتگردی عدالت حوالگی کی درخواست مسترد کر سکتی ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا عدالت کو ملزمان کی حوالگی کی درخواست مسترد کرنے کا اختیار ہے اس پر جسٹس امین الدین نے کہا یہ دفاع تو ملزمان کی جانب سے انسداد دہشتگردی عدالت یا اپیل میں اپنایا جا سکتا تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا عدالت نے ملزمان کو نوٹس کیے بغیرکمانڈنگ افسرکی درخواست پرفیصلہ کردیا تھا؟ اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ سیکشن 94 کا اطلاق ان ملزمان پر ہوگا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں، اے ٹی سی فیصلے کے بعد ملزمان آرمی ایکٹ کے تابع ہو گئے، اےٹی سی کمانڈنگ افسر کی درخواست کو مسترد بھی کر سکتی تھی۔
وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ کورٹ مارشل کرنے کا فیصلہ ملزمان کی حوالگی سے قبل ہونا تھا، اگرکورٹ مارشل کا فیصلہ نہیں ہوا تو ملزمان کی حوالگی کیسے ہو سکتی ہے؟ جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کیا کمانڈنگ افسر کی درخواست میں حوالگی کی وجوہات بتائی گئیں؟ فیصل صدیقی نے کہا کمانڈنگ افسر کی درخواست میں کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔
اس موقع پر جسٹس نعیم اختر نےکہا کہ ملزمان حوالگی کی درخواست میں وجوہات بتائی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ ملزمان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے جرائم ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت شکایت کےاندراج کا طریقہ ضابطہ فوجداری میں واضح ہے، شکایت مجسٹریٹ کے پاس جاتی ہے، مجسٹریٹ بیان ریکارڈ کرکے فیصلہ کرتا ہےکہ تفتیش ہونی چاہیے یا نہیں۔
فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ درخواست مقدمہ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت درخواست وفاقی حکومت ہی دے سکتی، کوئی پرائیویٹ شخص آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت درخواست نہیں دے سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ مقدمات ملٹری کورٹ سے عدالت میں منتقل ہوں تو ٹرائل کہاں سے شروع ہوگا ؟ کیا ٹرائل ملٹری ٹرائل کے ریکارڈ شواہد سے شروع ہوگا؟
جسٹس امین الدین نے سوال کیا پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن کی دلیل سے ملٹری ٹرائل کی توثیق نہیں ہوجائےگی؟ فیصل صدیقی نے کہا ملٹری ٹرائل کو سپریم کورٹ میں آرٹیکل 245 کے اطلاق کی وجہ سے چیلنج کیا، جسٹس امین الدین نے کہا 9 مئی کو تو آرٹیکل 245 نہیں لگا تھا، جب درخواستیں دائر کیں تب آرٹیکل 245 لگ چکا تھا۔
بعد ازاں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔