ریکوڈک مائننگ کمپنی کا سہولیات فراہم نہ کرنے پر اظہار تشویش

0 8

ذرائع کا کہنا ہے کہ ریکوڈک مائننگ کمپنی نے حکومت کی جانب سے سیکیورٹی سروسز فریم ورک ایگریمنٹ ( SSFA) اور مفاہمتی یادداشت کے مطابق سہولیات فراہم نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جس سے کمپنی کو 3لاکھ 90 ہزار ڈالر کے اضافی اخراجات کرنے پڑے ہیں۔

ادھر وزیراعظم آفس نے ریکوڈک مائننگ کمپنی کی جانب سے ایف سی بلوچستان کو جمع کرائی گئی رقم کی بروقت ادائیگی کرنے کی درخواست کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق داخلہ ڈویژن نے ای سی سی کی حالیہ میٹنگ میں بتایا کہ ایف سی بلوچستان کو ریکوڈک منصوبے کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے۔

ریکوڈک مائننگ کمپنی کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے مطابق کمپنی نے سیکیورٹی اخراجات کیلیے ایف سی کو ایک بار گرانٹ ادا کرنی تھی، کمپنی کی جانب سے گرانٹ جمع کرانے کے بعد 2.801 ارب روپے ادا کرنے کی سمری بھیجی گئی تھی، فنانس ڈویژن نے جس میں سے مختلف حفاظتی آلات اور وہیکلز کی خریداری کیلیے 1,951.995 ملین روپے کی سفارش کی، جبکہ 848.641 ملین روپے تاحال بقایا ہیں۔

جبکہ ریکوڈک مائننگ کمپنی دوسری قسط کے طور پر مزید 943.709 ملین روپے جمع کراچکی ہے۔

داخلہ ڈویژن نے مزید بتایا کہ فنانس ڈویژن کو ٹیکنیکل سپلیمنٹری گرانٹ کی مد میں 1.792 ارب روپے منظور کرنے کی ایک سمری بھیجی گئی تھی، تاہم فنانس ڈویژن نے صرف 25کروڑ 69 لاکھ 87ہزار 591 روپے کی منظوری دی۔

جبکہ فنانس ڈویژن نے داخلہ ڈویژن کو مشورہ دیا کہ منصوبے پر تعینات سیکیورٹی وہیکلز کی ریپیئرنگ اور مینٹیننس کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، جو کہ ریگولر بجٹ میں ممکن نہیں ہے، لہذا اس مد میں دوبارہ درخواست بھیجی جائے۔

اسی طرح پراجیکٹ ایریا میں رہائشی کرایوں کی مد میں بھاری چارجز وصول کیے گئے ہیں، مزید برآں یہ کہ فنانس ڈویژن نے ایف سی کو واجب الادا 62.728 ملین روپے تاحال ادا نہیں کیے ہیں۔

جبکہ منصوبے کی سیکیورٹی کیلیے ایف سی 24 گھنٹے سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہی ہے، اور اس کیلیے خوراک اور طبی سہولیات کی مسلسل فراہمی ضروری ہے، اس لیے خصوصی انتظامات کیے جانے ضروری ہیں، جن کیلیے ریکوڈک مائننگ کمپنی پہلے ہی فنڈز فراہم کرچکی ہے۔

داخلہ ڈویژن نے ریکوڈک منصوبے کی سیکیورٹی کو بلاتعطل جاری رکھنے کیلیے ای سی سی سے 1.792 ارب روپے کہ ٹیکنیکل سپلیمنٹری گرانٹ منظور کرنے کی درخواست کی، فنانس ڈویژن نے موقف اختیار کیا کہ چونکہ ایس سی کے پاس ایک ریگولر بجٹ موجود ہے، اس وجہ سے سپلیمنٹری گرانٹ پر مزید غور و خوض کو ضروری سمجھا گیا۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.