روئی کی امپورٹ سے کپاس کی کاشت میں غیر معمولی کمی کا خدشہ

0 4

مقامی ٹیکسٹائل ملوں کی سستی لاگت پر درآمدی روئی کی خریداری کو ترجیح دینے سے رواں سال روئی اور سوتی دھاگے کی درآمدات ریکارڈ سطح پر پہنچنے، روئی، پھٹی کی قیمتوں میں بڑی نوعیت کی کمی سے کپاس کی کاشت میں غیر معمولی کمی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

کاٹن ایئر 2025-26 کے دوران ملک میں اربوں ڈالر مالیت کی روئی، سوتی دھاگے کے ساتھ خطیر ذرمبادلہ کے عوض خوردنی تیل بھی درآمد ہونے کے امکانات ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ کپاس کی کاشت بڑھانے کے بارے میں مہم چلانے سے قبل روئی اور سوتی دھاگے کی درآمدات پرحاصل سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرے تاکہ ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے اندرون روئی کی خریداری شروع ہونے سے روئی اور پھٹی کے نرخ بہتر ہونے سے کاشت کاروں میں کپاس کی کاشت کے رجحان میں اضافہ ہو سکے۔

چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ایکسپریس کو بتایا کہ وفاقی بجٹ 2024-25 میں پالیسی سازوں نے روئی اور سوتی دھاگے کی درآمد کو سیلزٹیکس فری جبکہ اندرون ملک ان کی خریداری پر 18فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا۔

بین الاقوامی منڈیوں میں کچھ مدت کے لیے روئی کی قیمتیں پاکستان کی نسبت زائد ہوگئی تھیں لیکن درآمدی روئی و دھاگوں کے وسیع ذخائر کے سبب مقامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی اور پھٹی کی قیمتوں پر کوئی خاص اثر نہ پڑا.

احسان الحق نے بتایا بین الاقوامی منڈیوں میں روئی کی قیمتوں میں دوبارہ کمی کے باعث برآمدی نوعیت کی ٹیکسٹائل ملوں نے اندرون ملک سے روئی اور سوتی دھاگے کی خریداری یکسر معطل کرکے ان کی بڑے پیمانے پر درآمدات شروع کر دی ہیں.

جس کے باعث پاکستان میں رواں سال کپاس کی پیداوار ہدف سے 50 فیصد جبکہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 34 فیصد کم یا 55 لاکھ گانٹھ کم ہونے باوجود جننگ فیکٹریوں میں روئی کے اسٹاکس 35 فیصد ہیں اور ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے ان کی خریداری نہ ہونے کے باعث روئی کی قیمتیں گذشتہ ایک ماہ کے دوران ایک ہزار 500 روپے سے 2 ہزار روپے فی من تک گرچکی ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.