غزہ جنگ کے دوران امریکی ووٹرز میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی مقبولیت میں اضافہ ہوگیا۔
ہارورڈ اور ہیرس کے ایک نئے سروے کے مطابق ہر 5 میں سے ایک امریکی ووٹر غزہ جنگ میں اسرائیل کے مقابلے میں حماس کی حمایت کرتا ہے۔
یہ سروے 15 اور 16 جنوری 2025 کے درمیان کیا گیا جس میں 2 ہزار 650 رجسٹرڈ ووٹرز کی رائے لی گئی، سروے کے نتائج کے مطابق 21 فیصد افراد نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے حق میں رائے دی۔
اس کے برعکس غزہ جنگ کے آغاز پر اکتوبر 2023 میں ہونے والے سروے میں 16 فیصد امریکی ووٹرز نے حماس جبکہ 84 فیصد نے اسرائیل کی حمایت کی تھی۔
حماس کی حمایت نوجوان ووٹرز خاص طور پر 25 سے 34 سال کی عمر کے افراد میں زیادہ نمایاں تھی جن کی تقریباً ایک تہائی (32 فیصد) تعداد نے حماس کو اسرائیل پر ترجیح دی۔
اس کے برعکس اسرائیل کی سب سے زیادہ حمایت 65 سال یا اس سے زائد عمر کے بزرگ افراد میں نظر آئی جن کی 90 فیصد تعداد نے اسرائیل کی حمایت کی۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں میں سے 75 فیصد نے اسرائیل کی حمایت کی جبکہ 25 فیصد نے حماس کی طرف جھکاؤ ظاہر کیا۔
ری پبلکن ووٹرز کی اکثریت یعنی 81 فیصد نے اسرائیل کے لیے بھرپور حمایت ظاہر کی، تاہم 19 فیصد نے کسی نہ کسی حد تک حماس کے لیے حمایت کا اظہار کیا۔
خیال رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
سروے میں یہ بھی سامنے آیا کہ امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کا سہرا دیتی ہے۔
نتائج کے مطابق 57 فیصد افراد نے اس جنگ بندی کو ٹرمپ کی سفارتی کوششوں کا نتیجہ قرار دیا، جبکہ 43 فیصد نے اس کا کریڈٹ موجودہ صدر بائیڈن کو دیا۔
ری پبلکن ووٹرز میں یہ فرق اور بھی زیادہ واضح تھا جہاں 84 فیصد نے جنگ بندی کا سہرا ٹرمپ کی کوششوں کو دیا، جبکہ صرف 25 فیصد ڈیموکریٹس نے اس سے اتفاق کیا۔
امریکی ووٹرز کی اکثریت یعنی 82 فیصد نے غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کی جبکہ 18 فیصد نے اس کی مخالفت کی۔