سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس کی سماعت کے دوران ججز نے اپنے ریمارکس میں سابق آرمی چیف و صدر پرویز مشرف اور آرٹیکل 6 کا ذکر بھی کیا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی جس سلسلے میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ مارشل لاء کی توثیق کرتی رہی ہے، کیا غیر آئینی اقدام پر ججز بھی آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتے ہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں ججوں کے نام لیے گئے تھے مگر بعد میں نکال دیے گئے، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا آرمی ایکٹ میں آئین کو معطل کرنے کی سزا ہے؟
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ میں حلف کی خلاف ورزی کی سزا ہے، آئین معطل کرنے کی سزا آرٹیکل 6 میں ہے اور آئین ہر قانون پر فوقیت رکھتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں جن جرائم کا ذکر ہے قانون کے مطابق ان کا اطلاق فوجی افسران پر ہوگا۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کی شق 31 ڈی کے تحت آتا ہے، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جس قانون کا حوالہ خواجہ حارث نے دیا وہ صرف فوجیوں کو فرائض کی انجام دہی سے روکنے سے متعلق ہے۔